بادشاہی جمہوریت یا جمہوری بادشاہت؟

12 مئ 2014
اگر آزاد میڈیا، آزاد عدلیہ اور مسلم لیگ نواز کا رویہ درست ہوتا تو پچھلے پانچ سالوں میں بہت ساری تبدیلیاں  آسکتی تھیں -- السٹریشن -- خدا بخش ابڑو
اگر آزاد میڈیا، آزاد عدلیہ اور مسلم لیگ نواز کا رویہ درست ہوتا تو پچھلے پانچ سالوں میں بہت ساری تبدیلیاں آسکتی تھیں -- السٹریشن -- خدا بخش ابڑو

پاکستان ایک انتہائی عجیب ملک ہے جو نہ صرف اپنے قیام سے ہی خطرے سے دوچار ہو گیا بلکہ آزادی صحافت پر بھی تلوار لٹک گئی۔ پاکستان بنانے والوں کو جمہوریت سے کوئی لینا دینا نہیں تھا اور شاہی مزاج رکھنے والوں کو 'آزادی صحافت' جیسی لغویات ہضم نہیں ہوتیں لہذا صحافی اور صحافتی ادارے غیض و غضب کا نشانہ بننا شروع ہو گئے۔

نوے کی دہائی کا آخری حصہ تھا۔ وزیر اعظم نواز شریف کا دوسر ا دور حکومت شروع ہو چکا تھا کہنے کو تو وہ منتخب وزیر اعظم تھے مگر رویہ بادشاہوں والا تھا۔ کسی بات پر ناراض ہو کر فرائیڈے ٹائمز کے ایڈیٹر نجم سیٹھی کو گھر سے اٹھا لیا۔ عام آدمی کو پتہ چلا کہ آزادی صحافت خطرے میں ہے لہذا اس نے ان کی رہائی کے لیے جلوس نکالے، سیمینار کیے اور بالاخر نجم سیٹھی رہا ہوگئے۔

کچھ ماہ بعد بادشاہ کی لڑائی روزنامہ جنگ سے ہو گئی۔ مفادات کی اس جنگ کو روزنامہ جنگ نے بڑی کامیابی سے آزادی صحافت کی جنگ بنا دیا۔ عام آدمی کو بتایا گیا کہ جب تک اس ملک میں صحافت آزاد نہیں ہوگی تمہارے مسائل کبھی حل نہیں ہونگے۔ یہ جنگ غریب کارکنوں، صحافیوں اور سول سوسائٹی کی مدد سے جیتی گئی۔

جنگ جیتنے کے بعد عام آدمی ابھی اپنی حالت میں تبدیلی کے متعلق سوچ ہی رہا تھا کہ اس دوران جنرل نے بادشاہ کو معزول کر دیا۔ عدلیہ، سول سوسائٹی، مذہبی اور سیاسی جماعتوں نے جنرل کا خیر مقدم کیا۔ الیکشنز ہوئے، ملک میں مذہبی انتہا پسند دندنانا شروع ہوگئے، مذہبی جماعتیں، مہنگائی کے مارے عوام سے جہاد کے نام پر چندہ وصول کرنا شروع ہو گئیں۔ اسٹیبلشمنٹ بدستور بلوچستان میں بلوچ عوام کو ظلم و ستم کا نشانہ بناتی رہی۔

دوسسری طرف انفارمیشن ٹیکنالوجی کی بدولت نجی ٹی وی چینل بھی میدان میں آگئے۔ آزاد میڈیا اور اس کے ٹاؤٹ عام آدمی کو جہاد کے فوائد اور اس کی برکتوں سے آگاہ کرنا شروع ہوگئے۔ اسے بتایا گیا کہ طالبان پاکستان کی بقاء کی جنگ لڑ رہے ہیں انہوں نے پہلے کافر روس کو یہاں سے بھگایا تھا اور اب مردود امریکہ کو بھگا کر ہی دم لیں گے۔

پھر جب ان انتہا پسندوں کی سرگرمیاں ریاست کی نظر میں 'ریڈ لائن' عبور کرنے لگیں تو جنرل نے ان کو لگام دینے کے لیے لال مسجد آپریشن کیا۔ "آزاد میڈیا" نے لال مسجد آپریشن میں ہلاک ہونے والے "بے گناہ طالب علموں" کی "شہادت" پر ماتم شروع کر دیا۔ چیف جسٹس نے نوٹس لے لیا۔ جنرل نے آنکھیں دکھائیں تو عام آدمی کو پتہ چلا کہ چیف جسٹس نے ایک آمر کو ناں کر دی ہے اوراسے معطل کر دیا گیا ہے۔ عدلیہ کی "آزادی" خطرے میں پڑ گئی۔ عام آدمی کو بتایا گیا کہ جب تک عدلیہ آزاد نہیں ہو گی تمہارے مسائل حل نہیں ہو سکتے۔ عام آدمی پھر جلسے جلوسوں کی رونق بڑھانے لگا اور چیف جسٹس کو بحال کر کے دم لیا۔

جنرل پر چاروں طر ف سے دباؤ بڑھتا جارہا تھا۔ اس نے سیاستدانوں کی طرف مفاہمت کا ہاتھ بڑھایا۔ بے نظیر بھٹو سے مذاکرات ہوئے اور بحالی جمہوریت کا ایک طریقہ کار طے ہوا جسے این آر او کا نام دیا گیا۔ جہادی قوتیں نہیں چاہتیں تھیں کہ ملک میں ایسا جمہوری عمل شروع ہو جس میں کچھ روشن خیال اقتدار میں آجائیں لہذا 'آزاد عدلیہ' نے اس معاہدے کا از خود نوٹس لے لیا کہ ایک آمر کو کیسے یہ حق دیا جاسکتا ہے کووہ "چوروں اور لٹیروں" سے معاہدہ کرے۔

جنرل نے غصے میں آکر ایک بار پھر چیف جسٹس کو گھر بٹھا دیا۔ جیسے تیسے جمہوریت کی بحالی کی کوششیں شروع ہوئیں۔ این آر او کے تحت بے نظیر بھٹو اور پھر نواز شریف کی وطن واپسی ممکن ہوئی۔ بے نظیر بھٹو کو اپنی جان کی قربانی دینی پڑی۔ خدا خدا کرکے انتخابات ہوئے اور ایک ایسا پرامن انتقال اقتدار ہوا جس میں بے نظیر بھٹو کا خون شامل تھا۔ جمہوریت بحال ہو گئی، جنرل کی چھٹی ہو گئی مگر چیف جسٹس نہ بحال ہوسکا۔

آزاد میڈیا بشمول گولی کھانے والے صحافیوں نے بتایا کہ عام آدمی تو انتہا ئی بے وقوف ہیں جنہوں نے "چوروں اور ڈاکوؤں" کو اسمبلی میں بھیج دیا ہے ان کا احتساب تو آزاد عدلیہ ہی کرے گی۔ عام آدمی کے اصرار پر نئے بادشاہ نے چیف جسٹس کو بحال کر دیا۔ دوبارہ بحال ہونے کے بعد چیف جسٹس نے کہا کہ اب کوئی کرپٹ قانون کے شکنجے سے بچ نہیں سکے گا۔ جہادی تنظیمیں تو ملک میں دندنا ہی رہیں تھیں۔ آزادی صحافت کے علمبردار 'آزاد میڈیا' اور 'آزاد عدلیہ' نے بھی جمہوری حکومت کے خلاف اعلان جہاد کر دیا۔ معزول بادشاہ بھی میثاق جمہوریت کا لبادہ اتار کر ان قوتو ں کو ہلہ شیری دینا شروع ہو گئے۔

جمہوری حکومت نے تمام مخالفت کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کرنا شروع کیا اور کسی کے خلاف انتقامی کاروائی کیے بغیر ملک کے بنیادی مسائل کی طرف توجہ دی۔ گندم سمیت فصلوں کی امدادی قیمت بڑھائی تاکہ دیہاتوں میں بڑھتی ہوئی غربت کو کم کیا جا سکے۔ این ایف سی ایوارڈ تشکیل دیا۔ اٹھارویں ترمیم جیسا سنگ میل عبورکیا تاکہ صوبے مرکز کی مداخلت سے آزاد ہو کر اپنے طور پر عوام دوست پالیسیاں تشکیل دے سکیں۔

بادشاہی طریقہ کار کو ختم کرتے ہوئے اداروں کے سربراہوں کے تقرر کا طریقہ کار طے کیا۔ اس دوران آزاد میڈیا سیلز ٹیکس کی آڑ میں ریاست کا اربو ں روپیہ ڈکار لیے بغیر ہضم کر گیا اور ابو ارسلان کا لخت جگر فیصلوں کی قیمت وصول کرتا رہا۔ معزول بادشاہ قلابازیاں کھاتا رہا، کبھی جمہوریت کے حق میں بات کرتا اور کبھی کالا کوٹ پہن کر غیر جمہوری قوتوں کی مدد کو لپکتا۔

جمہوری حکومت نے کوشش کی کہ آئی ایس آئی کو وزیر اعظم یا وزیر داخلہ کے ماتحت کیا جائے لیکن آزاد میڈیا، گولی کھانے والے صحافی، آزاد عدلیہ اور معزول بادشاہ نے سختی سے مخالفت کی لہذا حکومت پیچھے ہٹ گئی۔

چونکہ ہم نے بڑھکیں مار کر آزادی حاصل کی اور مسلسل سڑسٹھ سالوں سے بڑھکیں مارتے آرہے ہیں۔ اس لیے عام آدمی سمجھتا ہے کہ بڑھکوں سے ہی مسائل حل ہوں گے۔ قوموں کے مسائل ایسے حل نہیں ہوتے اس کے لیے سنجیدگی سے جمہوری اداروں کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ وقت درکار ہوتا ہے۔

اگر آزاد میڈیا، آزاد عدلیہ اور مسلم لیگ نواز کا رویہ درست ہوتا تو پچھلے پانچ سالوں میں بہت ساری تبدیلیاں آسکتی تھیں اور کئی ادارے موجودہ حکومت کے دور میں اپنے مقام پر واپس جا سکتے تھے مگرافسوس……………..


لکھاری: محمد شعیب عادل لاہور سے شائع ہونے والے میگزین نیا زمانہ کے ایڈیٹر ہیں

تبصرے (1) بند ہیں

Abdullah Zaidi May 12, 2014 03:32pm
I agree with the writer's opinion