طاہرالقادری چاہتے کیا ہیں؟
وہ نہ تو لینن ہیں اور نہ ہی خمینی لیکن یہ محض ایک نااہل حکومت کی حماقت ہے جس نےایک عطائی کو ایک انقلابی بنا دیا-
لاہور میں گذشتہ ہفتے کی خوں ریزی اور ان کی آمد پر انتظامیہ کے خوف زدہ ردعمل نے ان کو وہ صلاحیت عطا کر دی جس کی انہیں عوامی غصہ بیدار کرنے کیلئے ضرورت پڑیگی- لیکن کیا وہ اس میں کامیاب ہونگے؟
اس ملک میں سیاسی یتیموں کی کوئی کمی نہیں ہے جو کسی کی بھی پیٹھ پر بیٹھنے کیلئے تیار ہو جائیں- اس کے علاوہ ایسی سیاسی جماعتیں بھی ہیں جو اس واقعہ کو اپنی سیاسی قدوقامت بڑھا نے کیلئے استعمال کرتی ہیں- لیکن ایک بات یقینی ہے کہ اس سیاسی شطرنج کے کھیل میں کوئی فاتح نہیں ہوگا-
قادری کی واپسی کینیڈا کی آرامدہ آماج گاہوں سے قومی قیادت کے ناکام وعدوں کی وجہ سے عوام میں بڑھتی ہوئی بے چینی کا فائدہ اٹھانے کی غرض سے ہوئی ہے جہاں وہ سال بھر پہلے شرمناک پسپائی کےبعد چلے گئے تھے- انہوں نے پورے نظام کو ایک عوامی بغاوت کی مدد سے تبدیل کرنے کا عہد کیا ہے مگر ساتھ ہی ساتھ فوج کی حمایت کے بھی بےچینی سے منتظر ہیں-
یہ کہنا مشکل ہے کہ قادری ایک سرپھرے طالع آزما ہیں یا اقتدار کے بڑے کھیل میں ایک چھوٹا سا مہرہ- ہمارے اس غیریقینی سیاسی ماحول میں کچھ بھی ممکن ہے- ان کا سخت گیر خطابت کا انداز ان کے اصل مشن کی پراسراریت کا بھید کھول دیتا ہے- سیاسی منظرپر ان کی اچانک آمد اور ان کی واپسی کا یہ مخصوص وقت سازشی کہانیوں کیلئے بے حد سازگار ہے-
منتخب حکومت کو اقتدار سے ہٹانے کے علاوہ قادری اب شمالی وزیرستان پر حملے کیلئے عوامی حمایت کو منظم کرنا چاہتے ہیں اور جس طرح سے وہ فوج کو اپنے سیاسی کھیل کے منصوبے میں ملوث کرنا چاہتے ہیں وہ بہت ہی پراسرار ہے- جب ان کی پرواز کا رخ لاہور کی طرف موڑاجارہا تھا تو انہوں نے فوج کی طرف سے تحفظ کی فراہمی کی بات کی تھی- قادری صاحب ایک انتہائی خطرناک کھیل کھیل رہے ہیں- یہ بالکل اسی طرح کی حرکت ہے جو انہوں نے پچھلے سال اسلام آباد والے ڈرامے میں کی تھی جب انہوں نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ انہیں فوج کے ساتھ سپریم کورٹ کی حمایت بھی حاصل ہے- لیکن یہ دھوکا فورا کھل گیا- اس کے چند ہفتوں کے بعد سپریم کورٹ میں انہیں جو خفت اٹھانی پڑی تھی جس کی وجہ سے انہیں اپنی مہم ادھوری چھوڑکر کینیڈا چلے جانا پڑا تھا- اس کے بعد وہ واپس آنے کیلئے صحیح وقت کا انتظار کرتے رہے-
درحقیقت پی پی پی کی حکومت نے گذشتہ سال کے احتجاج کو بہت زیادہ ہوشیاری سے نمٹایا تھا، بلکہ قادری صاحب کیلئے اپنی ساکھ بچانا ہو گیا تھا- ہر ایک کو پتہ ہے کہ پی پی پی کی حکومت کے ساتھ جو معاہدہ انہوں نے کیا تھا وہ بے معنی تھا- اس بار بھی قادری صاحب کے غبارے میں سے ہوا نکل سکتی اگر پی ایم ایل ن گلو بٹ اور پولیس کی دہشت گردیوں کا طریقہ ان کے حامیوں کے خلاف نہیں استعمال کرتی-
جو کچھ لاہور میں گذشتہ ہفتے ہوا وہ پی ایم ایل ن کے غرور اور تکبر کی ایک کلاسیکل مثال ہے جب بھی وہ اقتدار میں ہوتے ہیں- شریف برادران ماضی میں بھلے ہی ننگی جارحیت کے استعمال کے باوجود صاف بچ کر نکل گئے ہوں لیکن اس بار تو ان کی انتظامیہ نے تمام حدیں پار کر دی ہیں- اور حکومت کی طرف سے نقصانات کو کم کرنے کے اقدامات اور صورت حال کی بہتری کی کوششیں بہت دیر میں اور بہت کم کی گئیں- رانا ثناءاللہ کو برخواست کرنے اور کچھ سینیئرپولیس افسروں کے تبادلوں سے عوام کا غصہ نہیں ٹھنڈا ہوا ہے- کیونکہ ہر شخص کو معلوم ہے لوگوں کو سامنے سے گولی مارنا ناممکن ہے جب تک کہ اوپر سے ہدایات نہ ہوں-
وہ لاشیں قادری صاحب کے حامیوں کو متحد کرنے اور دوسرے حزب مخالف کی جماعتوں کو اکٹھا کرنے کیلئے ایک بہترین ذریعہ بن گئیں- عمران خان جو پہلے ہی شریف حکومت کے خلاف مبینہ انتخابی دھاندلی کو لیکر مہم چلارہے تھے، خودساختہ شیخ الاسلام کے ویسے ہی اتحادی بن گئے- مشترکہ وجوہات کی بنا پر تحریک انصاف حکومت پر دباؤ بڑھا سکتی ہے ، لیکن یہ واضح نہیں کہ اس کا نتیجہ کیا ہوگا-
یہ تو طے ہے کہ قادری صاحب موجودہ جمہوری نظام میں یقین نہیں رکھتے ہیں بلکہ ان کو شاید پتہ ہی نہیں کہ وہ واقعی کیا چاہتے ہیں- ان کا " عوامی انقلاب " کا نعرہ ان کے الجھے ہوئے ذہن کی پیداوار ہے- ایک ایسا شخص جو اپنا ملک چھوڑ کرمسقلاً کینیڈا میں قیام پذیر ہو اسے اپنے نمائشی نظریہ کو تسلیم کرنے والا مشکل ہی سے ملے گا- انقلابی لیڈر کا ایسا روپ نہیں ہوتا ہے جو فرسٹ کلاس میں سفر کرتا ہو اور ایک" غیرمنصفانہ اور استبدادی نظام" کو ہٹانے کی بات کرتا ہو-
قادری صاحب کی حمایت مسلک اور شخصی سحر کی وجہ سے ہے- ان کی ایسی عوامی حمایت نہیں ہے جو کسی نظام کیلئے سنجیدہ چیلنج سمجھی جاَئے- ان کی، بہرحال، میڈیا کی پبلسٹی کی بنا پراپنی ایک حیثیت بن گئی ہے جو ان کی بےاندازہ دولت کی وجہ سے ہے-
ان کی دولت کے ذرائع پر ایک زمانے سے سوالات اٹھتے رہے ہیں- ایک دوست جو تعلقات عامہ کی ایک کمپنی چلاتے ہیں بتاتے ہیں کہ چند سال پہلے قادری صاحب پیسوں سے بھرا ہوا ایک بریف کیس لیکر ان کے دفتر آئے اور ان سےاپنے لئے ایک کارآمد پبلسٹی مہم چلانے کی بات کی تھی- پیسہ شیخ الاسلام کے لئے کبھی مسئلہ نہیں رہا ہے- ان کا کہنا ہے کہ ساری دنیا سے ان کے ہزاروں اور لاکھوں چاہنے والے ان کو چندہ دیتے ہیں-
قادری صاحب کے ان چند سالوں میں مغرب سے بڑے وسیع تعلقات ہو گئے ہیں- دہشت گردی کے خلاف مہم اور خودکش دھماکوں کے خلاف ان کے فتویٰ کی وجہ سے یورپ میں ان کے بہت سارے دوست بن گئے ہیں- لیکن مسلمانوں میں انکی حمایت دنیا بھر میں مذہبی بنیاد پر ہے سیاست کی بنیاد پر نہیں-
یہ بات سوچنے والی ہے کہ قادری صاحب نے حکومت کو غیرجمہوری طریقہ سے ہٹانے کی مہم کیلئے اسی وقت کا انتخاب کیوں کیا- جبکہ اس وقت قوم کی پوری توجہ اس جنگ کی طرف ہونی چاہئے جو پرتشدد دہشت گردی کے خلاف ہے اور قومی سلامتی کے لئے خطرہ ہے، قادری صاحب کی نزاعی مہم نے قوم کی توجہ دوسری جانب کردی ہے-
اگرچہ کہ یہ پنجاب ہے جو اصلی سیاسی میدان جنگ بن گیا ہے، جس کی تھرتھراہٹ پورے پاکستان میں محسوس ہورہی ہے- ملک پرتشدد تنازعوں کا متحمل نہیں ہوسکتا جب کہ اس کے ہزاروں فوجی شمالی وزیرستان میں ایک جنگ میں مصروف ہیں اور سینکڑوں اور ہزاروں لوگ گھر سے بے گھر ہو گئے ہوں-
ترجمہ: علی مظفر جعفری
تبصرے (4) بند ہیں