چودہ کے بعد ہوگی … پندرہ اگست

13 اگست 2014
نیا پاکستان بنانے والوں کی دھمکی آمیز پریس کانفرنسوں اور بے ہنگم گفتگو پر کہیں سے کوئی آواز اُٹھتی سنائی نہیں دیتی  -- اے پی پی فوٹو
نیا پاکستان بنانے والوں کی دھمکی آمیز پریس کانفرنسوں اور بے ہنگم گفتگو پر کہیں سے کوئی آواز اُٹھتی سنائی نہیں دیتی -- اے پی پی فوٹو

حُسنِ اتفاق کہیئے یا اِتفاق کا حُسن، جو جمہوریت ہماری سلطنت میں قائم ہے اُس کے کیا کہنے! قومی ترانہ لکھنے والے شائد اُسی وقت سمجھ گئے تھے کہ اِس ارضِ پاک پر حُکمرانی کرنے والوں کے لئے قوم اور مُلک کی کوئی اہمیت ہو نہ ہو سلطنت اور اِس میں بسنے والے جمہور پر قائم رہنے والی جمہوری بادشاہت والے دیس کے ترانے میں ریاست سے زیادە سلطنت کا ہونا ضروری ہے۔

محترم اعتزاز احسن صاحب کی نظم کے مطابق "ریاست ہو گی ماں کے جیسی ہر شہری سے پیار کرے گی"، مگر مجھے پتہ نہیں کیوں ایسا لگتا ہے کہ ہماری تو ماں ہی مر گئی ہے، بھلا ماں کے ہوتے یہ سب ہوتا جو آج کل ہمارے ساتھ ہو رہا ہے!

سلام ہے اِس لنگڑی لُولی جمہوریت کو جسے حاصل کر کے (یہ جمہوریت 'حاصل' ہوئی ہے یا بخشی ہوئی یہ ایک الگ بحث ہے اور میرے نزدیک ابھی تک یہ بخشش میں ملی ہوئی نام نہاد جمہوریت ہی ہے جسے چند خاندانوں کے نام کر چھوڑا گیا ہے) ہم پھولے ہی نہیں سما رہے۔ نا جانے یہ سفید بالوں اور گنجے سر والے وُزراٴ کو جمہوریت کی رِٹ قائم کرنے کی جلدی ہے یا اپنا اگلا پچھلا حساب برابر کرنے کی۔ اتنی جلدی میں تو میں نے کبھی اپنے چھہ سالہ بیٹے کو بھی نہیں دیکھا۔

جیسی جمہوریت ویسے ہی نام نہاد کیمرە زدە دانشور اور مُفکر، لگے ہیں سب کہ سب دے مار ساڑھے چار، ارے بھائی مُلک کی آزادی سے آج تک آدھے وقت کے لئے بھی جمہوریت قائم نہیں رە سکی ہے، اب وجہ کوئی بھی ہو مگر ہم وطنوں کو سب سے زیادە عزیز سمجھنے والے ہماری محبت میں کبھی بھی اپنے آپ کو روک نہیں پاتے ہیں اور چڑھ دوڑتے ہیں محبت جتانے. اب محبت تو محبت ہوتی ہے چاہے بندوق کی نوک پر کی جائے یا توپوں کی گھن گرج میں۔

تاریخ میں پہلی بار جنابِ جنرل کیانی صاحب جیسے ایک ایسے چیف بھی ہمارے سامنے آئے جنہوں نے ناصرف جمہوریت کی ریل گاڑی کو چھُکا چھُک پٹری پہ دوڑنے دیا بلکہ پہلی دفعہ بقولِ بڑے خان صاحب بنی گالا والے "نیم شفاف" ہی سہی جمہوری انتقالِ اقتدار کو کامیابی سے یقینی بنایا.

تو بھائی، اگر فوج کا موُڈ نہیں ہے کہ وە آنے والے دنوں میں یا شائید کبھی بھی سیاست میں مُداخلت کرے تو چند وزیروں کے لئیے ایسا کیا ضروری تھا کہ وە پارلیمنٹ، پارلیمنٹ کے باہر اور ٹی وی کے کُچھ خاص پروگراموں کے چند پسندیدە یا شائد ایک ہی پسندیدە ترین جسے عام فہم زبان میں موسٹ فیورٹ اینکر کہا جاتا ہے کے شو میں بیٹھ کر سب سے زیادە جنرل نالج رکھنے والے جنرل صاحب جنہیں لوگ پرویز مشرف کے نام سے جانتے اور پہچانتے ہیں کی شان میں قصیدے پڑھیں؟ ایسا کرکے جمہوریت اور جمہور کی کون سی خدمت کی گئی؟؟

خیر میرا کیا ہے جی میں تو ٹھہرا غریب عوام۔ ایک تو غریب اوپر سے بدتمیز تو میرے کُچھ ماننے نہ ماننے سے فرق بھی کیا پڑتا ہے۔ میں تو ہوں ہی صرف سی این جی کی لائینوں میں لگے رکشوں میں بیٹھ کر بڑی بڑی گاڑیوں کو پٹرول بھرواتا دیکھنے کے لئیے، لوڈشیڈنگ کا عذاب جھیلنے کے لئے.

میرا کام تو صرف اپنی بھوک کی فکر اور بچّے پالنے میں مگن رہنا ہے. میری سوچ کا میرے بچوں کے پیٹ سے گُزر کے جانا جیسے لازم بنا دیا گیا ہو، ہر مہینے اسکول کی فِیس اور کتابوں تک پہنچتے پہنچتے میری سوچ کا بِیچ رستے میں مالکِ مکان کے سامنے سر جھُکا کے شرمندە شرمندە ٹہر جانا جیسے معمول سا بنا دیا گیا ہو۔ مجھے کب آزادی ملے گی؟

آزادی سے یاد آیا یہ تو اپنی آزادی والا مہینہ ہے نا؟؟؟ یہ وہی مہینہ ہے جس میں اپنے ابو کی اُنگلی پکڑ کر ہم ہر سال جھنڈیاں خریدنے جاتے تھے اور اب ہمارے بچے بھی ایسا ہی کرتے ہیں۔ اب سوال ہے تو بس یہ کہ کیا آنے والے سالوں میں بھی ایسا ہی کُچھ ہوگا یا ہماری آزادی کی تاریخ اور مہینہ تبدیل ہو جائے گا؟

شایئد 'نئے پاکستان' کے نئے یومِ آذادی کی نئی تاریخ کا اعلان نئے ڈیزائنوں کے ڈیزائنر جھنڈوں کے ڈیزائن مکمل ہوتے ہی نئے بانیِ نیا پاکستان اپنی مصروفیات میں سے وقت نکال کر خود فرمائیں گے یا ٹوئیٹر کے زریعے ہی اِس تبدیلی سے قوم کو آگاە کیا جائے گا؟؟۔

خیر صاحب جو بھی ہو، اِسی بہانے گھنٹوں ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر دھواں دھار تقریریں اور اُدھم ڈھاتی پریس کانفرنسیں سننے کا بھی اپنا ہی مزا ہے۔ قادری صاحب کی دو گھنٹے لمبی لائیو تقریر اتنی اینٹرٹینینگ تھی کہ مجھ سمیت کئی پاکستانیوں کو افطار ٹرانسمیشن کا سا گُمان ہونے لگا تھا۔۔ مجھے تو لگتا ہے کہ اگلے رمضان کسی نہ کسی چینل پر ایک ٹرانسمیشن "انقلاب رمضان" ضرور دیکھنے کو ملے گی۔۔

دوسری طرف نیا پاکستان بنانے والے بھائی صاحب کی دھمکی آمیز پریس کانفرنسوں اور بے ہنگم بدتمیز اندازِ گفتگو پر کہیں سے کوئی آواز اُٹھتی سنائی نہیں دی جبکہ کم و بیش ایسے ہی لہجے میں سندھ، بلوچستان یا کراچی کی کسی سیاسی پارٹی کے لیڈرز ایسے ہی کسی انداز میں گفتگو فرما جاتے تو اب تک آسمان سر پر اُٹھ چکا ہوتا اور دہشت گردی سے غداری تک کے کم و بیش سارے ہی تمغوں سے اُن بیچاروں کو نواز دیا گیا ہوتا۔۔

بہرحال مُختلف لوگ الگ الگ رائے رکھتے ہیں اور عام طور پر لوگ ایک دوسرے سے بس یہی سوال پُوچھ رہے ہیں کہ "14 اگست کے بعد کیا ہوگا؟" اِس سوال کا جواب شائید میرے سوا کسی کے پاس نہیں کیونکہ صرف مجھے ہی پتہ ہے کہ "پاکستان میں 14اگست کے بعد 15اگست ہو گی اور کُچھ بھی نہیں"، کیونکہ انقلاب اور تبدیلی ٹی وی پر تقریریں کرنے یا الیکشن جیتنے سے نہیں آیا کرتے ورنہ اب تک کم از کم پانچ دفعہ تو آہی چُکے ہوتے۔

تبصرے (0) بند ہیں