پاکستانی جھنڈا اور حکومتی ڈنڈا
ویسے تو لاہور عالیشان باغوں کی وجہ سے مشہور ہے مگر آجکل شہِر لاہور کے لاہوریوں کو دو ایسے باغیوں کا سامنا ہے جن کی وجە سے اس عظیم ثقافتی شہر کے شہریوں کو سیاپا پڑا ہوا ہے۔ جب سے دو انقلابیوں کی طرف سے یوم آزادی پر لاہور سے اسلام آباد لانگ مارچ کا اعلان کیا گیا ہے، پورے شہر کا چین و سکون غرق ہو کر رہ گیا ہے۔
ماڈل ٹاؤن کے اردگرد علاقوں میں جہاں پہلے ہی شریف خاندان کے گھروں کی وجہ سے رہائشیوں کا جینا اجیرن تھا۔ اب منہاج القران کی وجە سے ماڈل ٹاؤن آنے جانے والے تمام راستوں پر یا تو کنٹینرز پڑے ہیں یا پھر بیریئرز لگا کر راستے بند کر دیئے گئے ہیں۔
پتہ نہیں لاہوریوں کو کس چیز کا خمیازە بگھتنا پڑ رہا ہے۔ جب بھی کسی انقلابی کو انقلاب آتا ہے تو وە ہر مرتبہ شہر لاہور کا ہی انتخاب کیوں کرتا ہے۔ وفاق میں حکومت چاہے پیپلز پارٹی کی ہو یا نواز لیگ کی یا پھر مسلم لیگ ق کی۔ انقلاب مارچ کا آغاز اس بدقسمت شہر سے ہی کیا جاتا ہے۔
ایک طرف تو حکومت کی جانب سے پورے شہر کو یوم آزادی پر دلہن کی طرخ سجایا جارہا ہے اور دوسری طرف آئے روز پٹرول پمپس بند کر دیئے جاتے ہیں. سی این جی کا حصول تو اب لہوریو ں کے لئے ایک خواب سے کم نہیں اور ایسے حالات میں جب پٹرول اور سی این جی دونوں ہی دستیاب نا ہو تو لاہوری دلہن کی طرح سجے ہوئے شہر کو دیکھنے خاک نکلیں گے۔
ویسے ہی پورا لاہور تحریک انصاف اورعوامی تحریک کے لانگ مارچوں سے سہما بیٹھا ہے۔ جو لوگ یوم آزادی کی چھٹی کو ویک اینڈ کے ساتھ ملا کر ناردرن ایریاز جاناچاہتے تھے وہ بھی میڈیا پر مارچوں سے نبٹنے کی حکومتی تیاریاں دیکھ کر سیخ پا ہورہے ہیں۔
ماڈل ٹاؤن، فیصل ٹاؤن اور جوہر ٹاؤن کے مکین تو ایسی حالت میں ہیں کے نا ہی پوچھیں۔ ان علاقوں کی ہر ایسی سڑک یا گلی جو دائیں بائیں مڑ کر بھی منہاج القران جاتی ہو، کنٹینرز کے ذریعے بند کر دیا گیا ہے اور کچھ غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق ان کنٹینرز میں ایسا کیمیائی مواد پڑا ہے جسے کسی بھی وقت آگ لگ سکتی ہے۔
اس کے علاوہ ان ٹاؤنز کو جانے والے راستوں پر سیکیورٹی چیک پوسٹس پر بھی کافی سختی کی جارہی ہے۔ ہر موٹر سائیکل یا گاڑی میں بیٹھے اکیلے لاہوری کو اپنا آئی ڈی کارڈ دیکھ کر جانے دیا جارہا ہے۔
لاہور کنال کا تو حال ہی نا پوچھیں۔ بد قسمتی سے خان صاحب کی رہائش گاہ کنال پر ہونے کی وجہ سے نہر کے دونوں طرف سڑکوں پر ٹریفک جام رہتا ہے اور مال روڈ سے گڑھی شاہو جانے کے لئے نہر پر چڑھنے والا موڑ تو عمران خان کی لاہور آمد کے بعد سے مستقل بند کردیا گیا ہے۔ جس کی وجہ سے مال سے باغبان پورہ، ہربنس پورہ اور جلو موڑ جانے والوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
لاہور کے مال روڈ پر واقع خوبصورت تاریخی عمارتوں کو بھی اس مرتبہ حکومت کی جانب سے خصوصی طور پر سجایا گیا ہے اور شام کے اوقات میں چیئرنگ کراس سے ریگل چوک تک چلنے والی اونٹنی کار کو بھی یوم آزادی کی خصوصی تقاریب کے تحت چلایا جارہا ہے۔
یوم آزادی کے روز تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے لانگ مارچز کے جاری کئے گئے پلان کے مطابق جمعرات کی صبح براستہ جی ٹی روڈ اسلام آباد روانہ ہونگے۔
اس لحاظ سے عمران خان لاہور کے مال روڈ سے چیئرنگ کراس، ریگل چوک، جی پی او چوک ، لوئر مال اور نئے تعمیر شدہ آزادی چوک سے ہوتے ہوئے جی ٹی روڈ پر گامزن ہونگے۔
مولانا قادری کا لانگ مارچ ماڈل ٹاؤن سے نکل کر لاہور کنال کے ذریعے مال روڈ پر تحریک انصاف کے لانگ مارچ میں شامل ہوگا۔
اس دفعہ ان دونوں لانگ مارچوں کی وجہ سے لاہوری من چلوں کو رنگ رلیاں منانے کے لئے پٹرول بھی دستیاب ہوتا ہے کہ نہیں، اس بارے میں ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ عقل کا استعمال کرتے ہوئے دیکھا جائے تو دونوں لانگ مارچ شام تک لاہور کی حدود سے باہر نکل چکے ہونگے اور لاہوریوں کو موقع مل جائیگا کے وہ یوم آزادی کی شام مال روڈ پر چمن آئسکریم کھا کر منا سکیں۔
لیکن اگر حکومت کی جانب سے عمران خان اور طاہر القادری کو ان کے گھروں میں نظر بند کیا جاتا ہے تو پھر حالات قابو سے باہر ہو سکتے ہیں اور لاہوریوں کو انقلابیوں کی وجہ سے اپنی یوم آزادی کی قربانی دینی پڑ سکتی ہے۔
بلاگر کا تعلق الیکٹرانک میڈیا سے ہے۔ مگر لکھاری اخراجِ جزبات، خیالات و تجزیات کے لئے ذریعہ بلاگ کا استعمال بہتر سمجھتا ہے۔
Twitter: @navidnasim
تبصرے (2) بند ہیں