اطالوی کوہ پیما کا بغیرآکسیجن کے-ٹو سر کرنے کا کارنامہ
اسلام آباد : تمارا لنگر ان سات خواتین میں سے ایک ہیں، جو 8611 میٹر بلند دنیا کی دوسری بڑی چوٹی کے ٹو کو 26 جولائی کو بغیر آکسیجن کے ذخیرے کے سر کرنے میں کامیاب رہیں۔
تمارا لنگر پندرہ سال کی عمر سے آٹھ ہزار میٹر سے زائد بلند چوٹیوں کو سر کرنے کا خواب دیکھ رہی تھیں۔
اٹھائیس سالہ اطالوی باہمت کوہ پیما خاتون کا کہنا ہے" کے ٹو کو منتخب کرنے کی ایک یہ بھی تھی اس کو سر کرنا سب سے مشکل کام ہے"۔
یہ تمارا کی جانب سے آٹھ ہزار میٹرز سے زائد بلند تیسری چوٹی ہے۔
انہوں نے کہا "کے ٹو رواں برس کی فہرست میں شامل نہیں تھی، بلکہ آخری منٹ میں پاکستان آکر اس چوٹی پر کوہ پیمائی کا فیصلہ اس وقت ہوا جب میری ایک دوست نے مجھے دیگر دوستوں کی خواہش کے برخلاف اپنے ساتھ مہم پر جانے کی پیشکش کی، میرے دوست پاکستان کو دہشت گردی سے متاثرہ ملک قرار دے کر یہاں آنے کے لیے تیار نہیں تھے"۔
تمارا ایک سال سے چوٹیوں پر چڑھنے کی تربیت لے رہی تھیں، وہ اور ان کی ٹیم کے اراکین پورٹرز کے بغیر کے ٹو سر کرنے کے لیے روانہ ہوئے اور اپنا سامان خود اٹھایا، اس فیصلے نے سینکڑوں میٹر طویل ڈھلوانوں پر چڑھنا بہت مشکل بنادیا تھا۔
تمارا کا کہنا ہے" اس کے باعث ہمیں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، خاص طور پر کیمپ ٹو سے اپنا سامان کو کیمپ تھری تک لے جانا بہت مشکل کام ثابت ہوا، میں اتنی زیادہ تھک گئی تھی کہ آگے بڑھنا ناممکن لگ رہا تھا اور میرا خیال ہے کہ اس سفر کے دوران میرا بیک بیگ تیس کلو کے قریب سامان سے بھرا ہوا تھا"۔
جسمانی مشکلات کے ساتھ ساتھ کے ٹو کی چڑھائی ذہنی چیلنج بھی ثابت ہوئی۔
تمارا نے ایک شخص کو گرتے اور زخمی ہوتے دیکھا، جس نے متعدد افراد کو کئی بار واپس جانے کے بارے میں سوچنے پر مجبور کردیا، مگر چونکہ وہ پہاڑوں سے عشق کرتی تھی اور یہ جذبہ انہیں آگے لے جانے کے لیے کافی ثابت ہوا۔
تمارا کو بیس کیمپ سے چوٹی تک پہنچنے میں چار روز لگے" ہمیں 7900 میٹر کی بلندی پر پہنچنے کے بعد دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی تک پہنچنے کے لیے مزید سات سو میٹر کا فاصلہ عبور کرنے میں پندرہ گھنٹے لگے، ہم کیمپ سے نصف شپ کے بعد نکلے تھے اور حیرت انگیز طور پر موسم بہترین تھا، جو کہ کے ٹو کو سر کرنے میں سب سے اہم عنصر کی حیثیت رکھتا ہے، اس کو سر کرنے کے لیے شفاف آسمان کے ساتھ تین سے چار روز لگ ہی جاتے ہیں"۔
انہوں نے پاکستان کو کوہ پیمائی کے لیے بہترین ملک قرار دیتے ہوئے یہاں ایک بار پھر واپس آنے کا عزم ظاہر کیا۔
ہوٹل کی لابی میں بیٹھی گھر واپس جانے کے لیے تیار تمارا نے بتایا کہ کوہ پیمائی کے دوران سب سے بڑا خوف موت کا تھا "مگر چوٹیوں پر چڑھنا ہمارا اپنا انتخاب ہے اور یہی چاہتے ہیں"۔
تمارا کی ٹیم کے لیڈر گیوزیپی پومپل نے بھی کے ٹو کو آکسیجن کے ذخیرے کے بغیر سر کیا یہ اور ان کی آٹھ ہزار سے زائد بلند تیسری چوٹی تھی۔
اس سے قبل 2006 میں پومپل ان ڈیڑھ سو کوہ پیماﺅں میں سے ایک بن گئے تھے جنھوں نے ساتوں براعظموں کی ساتوں بلند ترین چوٹیاں سر کی تھیں، جبکہ آج یہ اعزاز ساڑھے تین سو سے زائد افراد کے پاس ہے۔












لائیو ٹی وی