لڑکیوں کی تعلیم کی گلوبل آئیکون
اسلام آباد : اسکول کی طالبہ سے سماجی کارکن بن جانے والی ملالہ یوسفزئی کی طالبان کے ہاتھوں فائرنگ میں زخمی ہونے کے بعد دوبارہ جنگ کے میدان میں اترنے کی ہمت نے اسے انسانی حقوق کی علامت اور عالمی مطالبے کی مہم کا رکن بنادیا۔
بہت کم نوجوان ہی کہہ سکتے ہیں کہ انہیں دو بار نوبل امن انعام کے لیے نامزدہ کیا گیا یا انہوں نے اپنی 17 ویں سالگرہ نائیجریا کے صدر کو اس عسکریت پسندوں کے ہاتھوں اغوا ہونے والی سینکڑوں طالبات کی رہائی کے لیے قائل کرتے ہوئے گزاری۔
مگر ملالہ کوئی عام نوجوان نہیں، وہ اس نو اکتوبر 2012 کو ایک طالبان عسکریت پسند کے اس کے اسکول بس میں داخل ہوکر یہ پوچھنے " ملالہ کون ہے؟" اور اس کے سر پر گولی اتارنے سے بھی برسوں پہلے عوامی نظر میں آچکی تھی۔
اس کے والد ضیاالدین جو ایک اسکول کے پرنسپل اور تعلیم کی مہم چلانے والے ہیں، نے وادی سوات سے تعلق رکھنے والے اپنی باصلاحیت لڑکی کو شہرت کی چکاچوند میں لانے میں مدد فراہم کی۔
ضیاءالدین کی حوصلہ افزائی کی بدولت ہی ملالہ نے 2009 میں صرف گیارہ سال کی عمر میں اس وقت قلمی نام سے بی بی سی اردو کے لیے بلاگ لکھنا شروع کیا جب سوات طالبان کے زیرتحت آچکا تھا، جہاں لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی عائد کردی گئی تھی۔
دو ہزار سات میں عسکریت پسندوں نے علاقے کا کنٹرول سنبھالا، جس ملالہ پرجوش انداز میں "میرا سوات" کہتی ہے، وہ اپنے مخالفین کو قتل کرنے لگے، سرعام لوگوں پر شریعت کی مبینہ خلاف ورزی پر کوڑے برسائے جاتے، خواتین پر مارکیٹوں میں جانے پر پابندی لگادی گئی جبکہ لڑکیوں کو اسکولوں میں جانے سے روک دیا گیا۔
ملالہ کے قلمی نام سے لکھے گئے واضح اور بے تکلف بلاگز کی بدولت پاکستان میں ایک کھڑکی کھلی جس میں سرحدوں کے اندر موجود مشکلات کا اظہار ہوا، مگر 2012 میں حملے کے بعد جب وہ کرشماتی طور پر ایک برطانوی ہسپتال میں صحت یاب ہونے میں کامیاب ہوئی، ملالہ ایک حقیقی عالمی شخصیت کے روپ میں ڈھل گئی۔
سابق برطانوی وزیراعظم گورڈن براﺅن جو اب اقوام متحدہ کے تعلیم کے خصوصی نمائندے ہیں، نے ہسپتال جاکر ملالہ کے مشن کو ایک پٹیشن کے ذریعے اٹھایا جسے پاکستانی حکومت کو پیش کیا گیا۔
اس وقت سے وہ ایک بین الاقوامی اسٹار بن گئی، جو حقوق کے حصول کی جنگ کے لیے جانے جانی لگی۔
ملالہ کو گزشتہ سال یکم جولائی کو اس وقت پرجوش خراج تحسین ملا جب وہ اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی میں خطاب کے لیے آئی جہاں اس نے عزم ظاہر کیا کہ وہ کبھی خاموش نہیں ہوگی۔
یہ نوجوان طالبہ اسی سال یور پی یونین کا انتہائی معتبر سخاروف ہیومین رائٹس پرائز جیتنے میں بھی کامیاب رہی۔
سترہ سالہ ملالہ کی سوانح حیات بھی شائع ہوچکی ہے اور اسے برطانوی ملکہ الزبتھ دوئم کی جانب سے چائے پر مدعو بھی کیا گیا، جو کہ ثابت کرتا ہے کہ اس کی شہرت کسی تعلیم کے لیے کام کرنے والے کارکن سے زیادہ فلمی ستارے جیسی ہے۔
سی این این کو گزشتہ سال دیئے گئے ایک انٹرویو میں ملالہ نے کہا کہ وہ پاکستان کی وزیراعظم بننا چاہتی ہے تاکہ اپنے ملک کو "بچا" سکے۔
اس کی سوانح حیات" آئی ایم ملالہ" اس لڑکی کے نسوانی پہلو کو اجاگر کرتی ہے، وہ کینیڈین پاپ اسٹار جسٹن بائبر کی پرستار ہے اور اسے 'ٹوائیلائیٹ' کے رومانوی ویمپائر ناول سیریز پسند ہے، مگر اس کی تحریک جاری ہے۔
رواں برس اپنی 17 ویں سالگرہ پر وہ نائیجرین دارالحکومت ابوجہ میں تھی اور صدر گڈلک جوناتھن پر زور ڈال رہی تھی کہ وہ عسکریت پسند گروپ بوکو حرام کے ہاتھوں اغوا ہونے والی سینکڑوں طالبات کے والدین سے ملیں۔
اگرچہ وہ 2013 میں نوبل امن انعام جیت نہیں سکی مگر اسے رواں برس بھی دوسری بار اس انعام کے لیے نامزد کیا گیا ہے۔