ملی جلی برابری

16 اکتوبر 2014
پاکستانی اور ہندوستانی کچھ معاملات پر گلے ملنے کے خواہشمند اور دیگر پر ان کے اندر قوم پرستی کی رگ پھڑکنے لگتی ہے۔
پاکستانی اور ہندوستانی کچھ معاملات پر گلے ملنے کے خواہشمند اور دیگر پر ان کے اندر قوم پرستی کی رگ پھڑکنے لگتی ہے۔

ملالہ یوسفزئی کا نوبل انعام جیتنا پاکستان کے لیے فخر کے لیے ایک نایاب اور زبردست لمحہ تھا، جبکہ کیلاش سیتارتھی کے ساتھ اس اعزاز کو شیئر کرنا ایک اضافی اچھا محسوس کرانے والا پوائنٹ تھا، یہ مشترکہ اعزاز اس حقیقت پر زور دیتا ہے کہ سرحد کے دونوں اطراف جدوجہد اور تمنائیں یکساں ہیں اور یہ پاکستان اور ہندوستان کو تقسیم کرنے کی بجائے زیادہ متحد کررہی ہیں۔

ایک پاکستانی اور ایک ہندوستانی کے درمیان اس ایوارڈ کو تقسیم کرکے نوبل کمیٹی نے دو غیرمعمولی افراد کی فعالیت سے زیادہ برصغیر میں رقابت کی بجائے مشترکہ چیلنجز پر اکھٹے توجہ دینے کی ضرورت کو اجاگر کیا ہے۔

اس وقت جب پاکستان اور ہندوستان کے درمیان لائن آف کنٹرول پر فائرنگ اور آگ اگلتے بیانات کا تبادلہ ہورہا ہے اس سے زیادہ تلخ وقت کوئی اور نہیں ہوسکتا، حالیہ سرحدی جھڑپوں پر دونوں اطراف سے ہمیشہ جیسا ردعمل ہی ابھرا ہے، یعنی لیڈروں کی دھمکیاں، مقامی سطح پر سیاستدانوں کے درمیان طنزیہ بیانات کا تبادلہ اور دشمن سے 'نرمی'، ہسٹریا، میڈیا پر انگلی اٹھانا اور آن لائن چینیلز پر حقارت پر مبنی سلوک۔

اس تناظر میں سرحدوں کے دونوں جانب نوبل انعام کے اعلان پر گرم جوش اور پرخلوس مبارکباد کا تبادلہ اختلافات کی بجائے باہمی اشتراک کی ضرورت پر زور محسوس ہوتا ہے، یہاں تک کہ ہندوستانی وزیراعظم نریندرا مودی نے بھی ملالہ یوسفزئی کی دلیری کو اس وقت سراہا جب کچھ دیر پہلے ہی انہوں نے پاکستانی فورسز کو شایان شان سبق سیکھانے کا بیان دیا۔

آخر یہ ذہنی تضاد کیوں جاری ہے؟ آخر پاکستانی اور ہندوستانی کچھ معاملات پر گلے ملنے کے خواہشمند ہوتے ہیں اور دیگر پر ان کے اندر قوم پرستی کی رگ پھڑکنے لگتی ہے؟

نوبل امن انعام پر مباحثوں کے دوران اس ذہنی تضاد کا اظہار بمشکل ہی ہوتا ہے، ادھر ایل او سی پر شیلنگ جاری ہے، بینگ بینگ پاکستانی سینماﺅں پر دھاوا بول رہی ہے،ہندوستانی پاکستانی ڈرامہ سیریلزکو دیکھنے کے لیے ٹی وی دیکھ رہے ہیں اور فواد خان پر فدا ہیں، پاکستان فیشن ڈیزائنرز، موسیقار، فنکار اور ادیب ہندوستان میں گرم جوش استقبال سے لطف اندوز ہورہے ہیں، جبکہ انڈین کرکٹرز، فلمساز، عالمین اور سیاستدانوں تک کا پاکستان میں احترام کیا جارہا ہے، مگر اس کے ساتھ ساتھ ہنگامہ آرائی بھی جاری ہے اور ہر ایک جنگ پسندی کا حامی نظر آتا ہے۔

دو 'قریبی حریفوں' کے درمیان اس طرح کے تضادات سے بھرپور رویوں سے کیا چیز سامنے آتی ہے؟ دونوں اطراف کے درمیان اس نفرت کی کچھ وجوہات خود بنائی گئی ہیں: کمرشل میڈیا انڈسٹریز جنھیں ریاست یا فوج کی جانب سے مالی تعاون ملتا ہے اور وہ قومی سیکیورٹی کے معاملے پر جبری طور پر بھی مجبور کیے جاتے ہیں، مقامی سیاسی کلچر میں حریف کی خامیوں کو اچھالا جاتا ہے جس میں دائیں بازو کی جانب سے امن پسند سیاست کو ہدف بنایا جانا بھی شامل ہے، اقربا پروری کا کلچر جو کاروباری اشرافیہ کو اپنے ذاتی مفادات کے تحفظ کے لیے سرحد پار تجارت کی مخالفت پر اکساتی ہے، آمرانہ ویزا پالیسیاں جو پاکستانیوں اور ہندوستانیوں کو ایک دوسرے سے اجنبی بنائے رکھتی ہیں۔

باہمی لگاﺅ کے احساس کی وجوہات کی نشاندہی کرنا بہت مشکل ہے، متعدد پاکستانی خاندانی تعلقات یا مشترکہ تاریخ کی بناءپر ہندوستان سے خوشگوار رابطے یا تعلق کو محسوس کرتے ہیں، یہ نسٹجلیا ہندوستانی ریاستی پالیسیوں میں بہت کم نظر آتا ہے اور اس علیحدگی کا احساس پاکستانیوں کو اس بات کا موقع فراہم کرتا ہے کہ وہ ہندوستانی جارحیت کو مسترد کرتے ہوئے اپنے تصور سے جانے پہچانے ہندوستان کو دیکھیں۔

علاوہ ازیں ایک قوم کی حیثیت سے ہم عالمی سطح پر ناقص نمائندگی کرتی ہو، ہمیں طویل عرصے سے ہندوستانیوں کے نمائندے کی حیثیت سے شناخت کیا جاتا ہے، جو کہ تسلیم کرنا اور تصور کرنا آسان ہے ۔

ہندوستانی ریاستی یا فوجی پالیسیوں سے الگ تھلگ رہنے کی صلاحیت کو پاکستانی عوام کا حصة سمجھتے ہیں جنھیں سیاست کی جڑوں سے نکال باہر کیا گیا ہے، بھرپور جمہوری کلچر سے لطف اندوز ہونے والے ہندوستانی پاکستانی فوج کی بالادستی کی تاریخ کے باعث شکوک و شبہات کا شکار رہتے ہیں اور ریاسیت قیادت کو عوامی رائے کا نمائندہ یا قابل جواب تصور نہیں کرتے، اس چیز نے سخت گیر سیاسی مقررین اور فوجیوں کی سرحدوں پر موجودگی جبکہ موسیقاروں، کرکٹرز اور ادیب جو پاکستان کے سماجی ڈھانچے پر مشتمل ہوتے ہیں، کی مقبولیت کے تضاد کو سمجھنا آسان کردیا ہے۔

دونوں اطراف میں نفرت کے احساس کو اس وقت بڑھایا جب دونوں ممالک کو باہمی اختلافات سے نکل کر عالمی سطح پر ایک ہونے کے کیے دباﺅ کا سامنا ہے، خطے یا عالمی سطح پر ہم فوری طور پر پاکستانی اور ہندوستانی کی تقسیم کو بھلا کر انہیں دیسی کی حیثیت سے شناخت کرتے ہیں، یہ جذبات اس وقت مزید ابرھتے ہیں جب انڈین فلمز آسکرز میں جاتی ہیں جبکہ پرستار مخالف کرکٹ ٹیم کی مغربی ممالک کے چیلنجز کے خلاف حمایت کرتے ہیں، اور اسی طرح مشترکہ نوبل انعام پر ردعمل سامنے آیا ہے۔

یہ خیالات بالکل سادہ ہیں اور اس سے دونوں اطراف میں دہائیوں پر مبنی برین واشنگ اور دائیں بازو کی سیاست کی لمبائی جس سے نفرت کو اضافہ ملا، کو حقیر سمجھنے کا غلط اندازہ کرنا آسان ہوجاتا ہے۔

اس بات کے بھی امکانات ہیں کہ تضاد سے بھرپور سوچ نسلوں کی تبدیلی کا نتیجہ ہو، پاکستانی اور ہندوستانی نوجوانوں کے لیے رقابت زیادہ سلگتا ہوا مسئلہ نہیں کیونکہ ان کے ذہنوں میں جنگوں کی کوئی یاد نہیں، وہ سوشل میڈیا کے ذریعے رابطے کرسکتے ہیں اور حال ہی میں انہیں اپنی سرحدوں کے اندر مختلف چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا ہے جس میں پڑوسی ملک کا کوئی خاص کردار نہیں۔

وجہ جو بھی ہو یہ ذہنی تضاد پاکستان اور ہندوستان کے درمیان تعلقات بہتر بنانے کے مواقعے پیدا کررہا ہے، اسے ضائع نہ ہونے دیں۔

انگریزی میں پڑھیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (2) بند ہیں

S.T. HAIDER Oct 17, 2014 01:59pm
دونوں ملکوں کے لوگوں کے دلوں میں ایک دوسرے کے بارے میں بدگمانیاں ہیں . جس کو بھارت کی کچھ سیاسی جماعتیں دشمنی میں بدلنے کی ہمیشہ سے خواہشمند رہی ہیں . اب تو بھارتی میڈیا میں بھی ان جماعتوں کے لوگ قابض ہو گئے ہیں . جن کا کام صرف یہی ہے کہ پاک دشمنی کو خوب ہوا دو . اور ستم ضریفی یہ کہ ہمارا اپنا سرکاری محکمہ اپنے دوست ملکوں تک کو بھارتی دشمنی کا حقیقی رویہ اب تک نہیں دکھا سکا ہے . پھر ہم خود بھی تو کسی سے پیچھے نہیں ہیں، ہمارے نجی ٹی وی پروگرام بھارتی گانوں کے بغیر نامکمل ہوتے ہیں ، اور پھر یہ تو صدیوں پرانی دشمنی ہے . چند دہائیوں میں تو ختم نہیں ہو گی - بھارت میں مسائل بہت ہیں ، مگر وہاں کی حکومتوں نے اپنے عوام کو ، پاک دشمنی . فلم بینی ، سیاست اور اب تو ٹی وی تفریحی پروگرام مٰیں الجھا رکھا ہے ، تاکہ وہ بنیادی مسائل سے غافل رہیں - بھارت نے ھمیشہ پاکستان سے صرف دشمنی کا رویہ رکھا ہے - کبھی عالمی دباؤ ہوتا ہے تو ، بات چیت کا ڈرامہ شروع کر دیتا ہے ، اور نتیجہ ہمیشہ صفر رہتا ہے . ایک قدم آگے بڑھتے ہیں ، اور کچھ دنوں میں دس قدم پیچھے چلے جاتے ہیں - یہ ڈرامہ سالوں سے جاری ہے -
S.T. HAIDER Oct 17, 2014 02:25pm
پاکستان کے کرکٹ کے میچ جیتنے پر تالی بجانے پر ، مقبوضہ کشمیر کے طالبعلوں پر تشدد پاک دشمنی کی ایک بہت چھوٹی سی مثال ہے - پچھلے پاک الیکشن کے دوران بھارتی میڈیا کے کتنے لوگ پاکستان میں الیکشن کی رپورٹنگ کے لیے پاکستان میں موجود تھے - کیا کسی پاکستانی صحافی کو بھارت میں یہ سہولت میسر ہے ؟؟؟؟ جبکہ اسی دوران بھارت ( جموں ) میں قید ایک پاکستانی قیدی کو جیل میں قتل کیا گیا - افسوس کی بات ہے ، اس کو پاکستانی میڈیا تک نے کوئی اہم خبر نہیں جانا - این ڈی ٹی وی کی برکھا دت ، بی بی کی شہادت کی رپورٹنگ کے بہانے پورے پاکستان میں دندناتی پھر رہی تھیں ، ( کس کی پشت پنہانی سے ) کیا کوئی پاکستانی صحافی بھارت میں یہ ایسا کر سکتا ہے ؟؟؟؟