چوہدری بننے کا بازخانی طریقہ

17 نومبر 2014
ہم معیشت بحالی کا ٹھیکہ آئی ایم ایف کو دے کر پرانے ڈھولوں کی تھاپ پر رقصاں ہیں، اور خود اقدامات کو تیار نہیں — فوٹو www.dollsofindia.com
ہم معیشت بحالی کا ٹھیکہ آئی ایم ایف کو دے کر پرانے ڈھولوں کی تھاپ پر رقصاں ہیں، اور خود اقدامات کو تیار نہیں — فوٹو www.dollsofindia.com

ہمارے بچپن کے دور میں باز خان نے کئی سال تک ہمارے گاؤں کے ڈیرے پر ملازم کی حیثیت سے اپنی گراں قدر خدمات انجام دیں۔ مویشیوں کی دیکھ بھال اور زمینداری کے چند دیگر امور آپ کے فرائض منصبی میں شامل تھے۔ بدقسمتی سے مرحوم کی طبیعت میں دیانتداری کا خاصا فقدان تھا، لہٰذا وہ اپنے ان فرائض سے کما حقہ‘ عہدہ برآ ہونے سے قاصر رہے اور اسی بنا پر تاحیات عزت سے کوسوں دور رہے۔

باز خان جہاں زندہ دل اور شوقین مزاج واقع ہوا تھا، وہاں معاشرتی ناہمواریوں کے سبب بڑی حد تک شخصی آزادیوں سے محروم بھی تھا۔ اس غریب کی شخصیت میں ایک بڑا سقم یہ تھا کہ اس کے دل میں چودھری بننے کی بڑی تڑپ تھی۔ اپنے اس شوق کی تسکین کے لیے وہ ’’سرعتِ اظہار‘‘ کی بیماری میں مبتلا تھا اور اسی عارضے کے طفیل وہ دن میں کم از کم دو مرتبہ ہمارے دادا جان مرحوم سے ضرور بے عزت ہوتا۔

بے عزتی مذکور کی ایک وجہ فریقین کے درمیان ملکہ ترنم نور جہاں کی شخصیت سے متعلق ’’نظریاتی اختلاف‘‘ بھی تھی۔ عصر کے وقت جب باز خان کام کاج سے فارغ ہوتا تو اپنا دل پشوری کرنے کا اہتمام شروع کردیتا۔ وہ لوہے کے صندوق سے اپنے ذوق و شوق کا سامان برآمد کرتا، جو اس نے ادھار سدھار اور اپنی مانگے تانگے کی خدا داد صلاحیت کے بل بوتے پر جمع کر رکھا تھا۔

اس ’’نازک موقع‘‘ پر باز خان نہا دھو کر اپنا بوسکی کا اکلوتا کُرتا زیب تن کرتا اور بائیں ہاتھ میں بھاری بھرکم گھڑی باندھ کر آستین چڑھا لیتا۔ وہ سفید رنگ کی بڑی سی پگڑی اپنے سر کی زینت بنا کر اور پاؤں میں زری کھسہ پہنے بیٹھک کے صحن میں داداجان کی چارپائی سے حتی المقدور فاصلے پر کسی کونے میں پڑی چارپائی پر براجمان ہو جاتا۔

باز خان تکیے میں کہنی دیے چارپائی پر نیم دراز ہو جاتا اورسلمہ ستاروں سے مزین سبز رنگ کے کپڑے سے بنے غلاف میں ملبوس اپنا ریڈیو آن کر کے بائیں ہاتھ میں پکڑ لیتا۔ اس موقع پر وہ اپنا ریڈیو اور گھڑی والا ہاتھ ’’باضابطہ طور پر‘‘ قدرے بلند رکھتا تاکہ اس پر آنے جانے والوں کی نظر پڑتی رہے۔ یہی چند چیزیں اس کی کل کائنات بھی تھیں اور اس کا ’’تصورِ چودھراہٹ‘‘ بھی انہی میں پنہاں تھا۔

ایسے میں جب اس کی سوچ کا اڑن کھٹولا اسے چودھری کے درجے پر فائز کر چکا ہوتا، تو وہ ریڈیو پر بجنے والے نغموں پر وجدانی کیفیت میں سر دھنتا اور مہمانوں اور راہگیروں کو جبراً جانکاری دیتا ’’نور جہاں پئی گاؤندی اے‘‘ (نور جہان گا رہی ہے)۔ اس کے چند لمحوں بعد وہ اپنا تکیہ کلام بھی ضرور دہراتا کہ ’’نور جہاں ساڈی ہانڑیں اے‘‘ ( نور جہان میری ہم عمر ہے)۔

دادا جان جو تکیے سے ٹیک لگائے کنکھیوں سے اس کی حرکات و سکنات کا تنقیدی جائزہ لے رہے ہوتے، اس فقرے سے ان کے دل پر چوٹ سی لگتی اور وہ تڑپ کر فرماتے ’’اوئے بے وقوفا! نور جہاں تمہاری نہیں، میری ہم عمر ہے‘‘۔ باز خان کو چونکہ اپنی عزت قطعی عزیز نہیں تھی، لہٰذا وہ موقع کی نزاکت کا احساس کیے بغیر ان کی بات کی تردید کرتا کہ ’’چودھری صاحب! آپ بزرگ ہیں اور نور جہاں جوان بندہ ہے، وہ آپ کی نہیں، میری ہم عمر ہے‘‘۔

عموماً یہ بحث زیادہ طول نہ پکڑتی اور یہی جملہ اس کی چودھراہٹ کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوتا۔ دادا حضور اسے چند گالیوں سے نوازنے کے بعد دھاڑتے ’’اوئے بازا! دفع ہو جا یہاں سے‘‘۔ دادا جان کے تلاطم خیز غصے کے آگے ٹھہرنا محال ہوتا، سو باز خان نیواں نیواں ہوکر مویشیوں کی حویلی کی طرف نکل جاتا لیکن اپنے اصولی موقف پر قائم رہتے ہوئے جانوروں کے آگے بھی اپنا دعویٰ داغ دیتا کہ ’’نور جہاں ساڈی ہانڑیں اے‘‘، البتہ کسی جانور کی جانب سے اس کے دعوے کی تردید کا کوئی ریکارڈ دستیاب نہیں، کیونکہ حیوان کبھی بھی کسی احمقانہ بیان کی تردید نہیں کرتے۔

گندم کی کٹائی کے موسم میں کہیں کہیں ڈھول کی تھاپ پر گندم کاٹنے کا رواج تھا۔ ایسے میں کھیتوں میں کام کے دوران جب دور کہیں ڈھول پر چوب پڑتی تو باز خان کے ہاتھ سے درانتی گر جاتی اور بے اختیار ’’ہائے‘‘ کہہ کراس کے پاؤں رقص کے لیے اٹھ جاتے۔ ایسے مواقع پر بھی اس کی درگت بننا معمول کا حصہ تھا۔

آج اتنے سالوں بعد ہمیں باز خان کی یاد یونہی نہیں آئی۔ ہم نے خبر پڑھی ہے کہ پاکستان کی طرف سے تمام شرائط تسلیم کرنے پر آئی ایم ایف نے ہمارے لیے ایک ارب دس کروڑ ڈالر کا مزید قرضہ منظور کرلیا ہے۔ وزیر خزانہ نے بتایا ہے کہ قرض کی یہ قسط پندرہ دسمبر سے قبل ملنے کی توقع ہے۔ ہمیں اس فیصلے نے مسرت سے نہال کردیا کہ ہم کچھ عرصہ مزید اپنی ’’چودھراہٹ‘‘ برقرار رکھ سکیں گے اور اس دوران کسی دوسرے دروازے پر صدا کرنے کا سوچ سکیں گے۔

باز خان کی حیات و خدمات کا طائرانہ جائزہ لینے سے یہ عقدہ کھلتا ہے کہ ہم اس کی سنت پر عمل پیرا نمودونمائش کی شوقین مزاج قوم ہیں اور اس کا طرزِ حیات ہمارے قول و فعل کا عملی نمونہ ہے۔ ایک طرف وزیروں کی فوجیں ہیں جو ان قرضوں سے ’’بوسکیاں‘‘ پہن کر ڈنگ ٹپاؤ پالیسیاں بنا رہے ہیں اور دوسری طرف ان کی رعایا ہے جو کل کی فکر سے آزاد مانگے تانگے کی پگڑیاں باندھے اپنی ناک اونچی رکھنے کی تگ و تاز میں مصروف ہے۔ ڈیم نہ بننے سے لاکھوں کیوبک فٹ پانی سمندر میں گر کر ضائع ہو رہا ہے، کوئلے کے ذخائر موجود ہیں جبکہ ہمارے منصوبہ ساز ملٹی نیشنل کمپنیوں اور دوسرے ملکوں کی مدد سے بجلی پوری کرنے کی سعی کرتے ہیں۔

خود کو دنیا کی ایٹمی طاقتوں کے ہم پلہ اور ’’ہم عمر‘‘ قرار دے کر ملک کو بیرونی جارحیت سے محفوظ تصور کیا جاتا ہے لیکن درونِ وطن ہماری ’’چودھراہٹ‘‘ اتنی لاغر ہے کہ شورش پسندوں اور ریاستی رٹ چیلنج کرنے والوں کے ساتھ مذاکرات کرنے کی دہائی دی جاتی ہے۔ ہماری ایک بڑی ’’باز خانی‘‘ یہ بھی ہے کہ ہم جدید سائنس اور ٹیکنولاجی کی بدولت قائم مضبوط گلوبل ویلج سے حتی المقدور فاصلے پر اپنی ’’ڈھوک‘‘ میں بیٹھے اسے اپنی جہالت کے زور پر فتح کرنے کی بڑھکیں مارتے ہیں لیکن عملی طور پر روٹی ان سے مانگ کر کھاتے ہیں۔

ہم خسارے کے بجٹ بنا کر قرض کی مے پیتے ہیں اور پھر ملک کو ایشین ٹائیگر اور شہروں کو پیرس بنانے کے خواب دیکھتے ہیں، جبکہ افراطِ زر اور آبادی میں اضافہ جیسی ’’حکیمانہ کارروائیاں‘‘ بھی شانہ بشانہ چل کر ان خوابوں کے شرمندہ تعبیر ہونے میں ’’ممدو معاون‘‘ ثابت ہو رہی ہیں۔ اپنے ستر فیصد عوام کی زندگیوں میں بنیادی سہولتوں کا گزر ہی نہیں اور ہم عراق، افغانستان، مصر اور برما کے مسلمانوں کے مسائل پر کلبلاتے ہیں۔

ہوائی قلعے تعمیر کرنے والے باز خان اور ہماری فکری اساس میں رتی برابر فرق نہیں۔ ہمارے دل میں بھی چودھری بننے کی بڑی تڑپ ہے مگر اس کے لیے ہم نے باز خانی طریقہ واردات اپنایا ہوا ہے۔ وہ مانگے تانگے کی بوسکی اور کھسہ پہن کر دل ہی دل میں چودھری بنتا تھا اور ہم دنیا کے در در پر کاسۂ گدائی گھما کر اپنے تئیں خود کو اس دنیا کا امام سمجھتے ہیں، جبکہ حقیقت میں بحیثیت ایک بد دیانت اور بھکاری قوم دنیا کی نظروں میں عزت سے کوسوں دور ہیں۔ معیشت کی استواری کا ٹھیکہ آئی ایم ایف کو دے کر پرائے ڈھولوں کی تھاپ پر رقصاں ہمیں سوچنے کی فرصت ہی نہیں کہ صرف امن اور ترقی کے خواب دیکھنے سے ان ’’بلاؤں‘‘ کا حصول ممکن نہیں، جب تک کہ اپنے خوابوں کی تعبیر کے لیے لڑنے کا حوصلہ اور جذبہ نہ ہو۔

آج دنیا ہماری ’’باز خانیوں‘‘ کا تماشا کر کر کے انٹرٹین ہو رہی ہے اور ہم سادہ لوح اسے اپنی چودھراہٹ خیال کیے بیٹھے ہیں۔ اپنی خامیوں اور کوتاہیوں پر اترانا اور ورثے میں ملے ہوئے مسائل کو ’’قومی ورثہ‘‘ بنا لیناباز خانیاں نہیں تو اور کیا ہیں؟ پس! اگر ہمیں دنیا کی ترقی یافتہ اور تہذیب یافتہ اقوام کی فہرست میں اپنا نام لکھوانا ہے تو ہمیں باز خان برانڈ ’’تصورِ چودھراہٹ‘‘ اور ’’باز خانی طرزِ حیات‘‘ ترک کرنا ہوگا کہ اس کے بغیر نہ وہ مرتے دم تک چودھری بن سکا اور نہ ہم مہذب کہلا سکیں گے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں