آئی ایس: ایک عالمی چیلنج

شائع November 19, 2014
آئی ایس کا ابھرنا عالمی عسکریت پسندی کو بڑھائے گا، یہ نئی تحریک نظریات اور پروپگینڈہ مشینری کے حوالے سے زیادہ باوسائل ہے
آئی ایس کا ابھرنا عالمی عسکریت پسندی کو بڑھائے گا، یہ نئی تحریک نظریات اور پروپگینڈہ مشینری کے حوالے سے زیادہ باوسائل ہے

آئی ایس کا سنسنی خیز انداز میں سر اٹھانا جسے ریاست اسلامیہ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے عالمی سطح پر افراتفری کا سبب بنا، اس نے انوکھے برے افراد کو سامنا لاکر جغرافیائی سیاست پر بھی ڈرامائی اثرات مرتب کیے، ان کی جنگی کارروائیوں نے امریکا اور ایران کو ایک ساتھ کھڑا ہونے پر مجبور کردیا ہے اور وہ آئی ایس کی خطرناک قوت کو منتشر کرنے کے لیے مشترکہ کوششیں کررہے ہیں اور ان کا ساتھ عرب ممالک دے رہے ہیں۔

آئی ایس مخالف مہم کے لیے سعودی عرب، اردن، مصر اور تمام خلیجی ریاستوں سمیت 62 اقوام کا اتحاد تشکیل دیا گیا ہے جو افغانستان میں 2001 میں امریکی حملے کے بعد اب تک کا سب سے بڑا اتحاد بھی ہے۔

اس تنازع میں سرگرم انداز میں شامل دو روایتی دشمن یعنی امریکا اور ایران، اب اس بات چیت میں مصروف ہیں کہ وہ کس طرح مشترکہ دشمن کا سامنا کرنے کے لیے اکھٹا ملکر اقدامات کرسکتے ہیں، گزشتہ ماہ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای اور صدر اوباما نے تسلیم کیا تھا کہ ریاست اسلامیہ کی طاقت کے خلاف جنگ دونوں ممالک کے مشترکہ مفاد میں ہے ، واشنگٹن اور تہران کے درمیان سرگرم تعاون خطے میں طاقت کے توازن کو مکمل طور پر تبدیل بھی کرسکتا ہے۔

گزشتہ ہفتے امریکا نے اعلان کیا تھا کہ وہ پندرہ سو اضافی فوج عراق بھیج رہا ہے تاکہ وہ لڑکھڑاتی حکومت کو عسکریت پسندوں کی لہر سے نمٹنے میں مدد فراہم کرسکیں، چند سال قبل ہی عراق سے انخلاءکے بعد امریکی فوجی ایک بار پھر وہاں پہنچ گئے ہیں، امریکا عراق اور شام میں اگست کے آخر سے آئی ایس کے خلاف فضائی حملے بھی جاری رکھے ہوئے ہے۔

سرکاری طور پر تو ایرانی حکومت نے عراق میں اپنے کسی فوجی کی موجودگی کی تردید کی ہے مگر کچھ مغربی نیوز رپورٹس کے مطابق ایران نے پاسداران انقلاب کے پانچ سو اہلکار آئی ایس کے خلاف جنگ کے لیے عراق کی مدد کے لیے بھیجے ہیں، پاسداران انقلاب مشرق وسطیٰ کی موثر ترین آپریشن فورسز میں سے ایک ہے، ایرانی ریاستی میڈیا نے عراق میں کم از کم ایک ایرانی فوجی کی ہلاکت کا بھی اعتراف کیا ہے۔

مگر عراق میں ایرانی ایلیٹ فورس کی موجودگی سعودی عرب اور دیگر عرب ریاستوں کے لیے باعث تشویش ضرور ہے جو کہ اب تک شام میں بشارالاسد کے حامی ایران کے مقابلے میں دیگر سنی گروپس گروپس کی حمایت کرتے رہے ہیں۔

آئی ایس کا مشترکہ خطرہ ہوسکتا ہے کہ ان طاقتوں کو تنازع کے ایک جانب کھڑا کردیں گے مگر یہ مفاد زیادہ لمبا عرصہ تک برقرار نہیں رہ سکتا، ایسا بالکل ممکن ہے کہ اس کا اختتام مشرق وسطیٰ میں پاور پلے کے ایک اور راﺅنڈ کی شکل میں ہو جو کہ دنیا کے لیے زیادہ بڑا مسئلہ ہوگا۔

سب سے زیادہ فکرمندی کی بات اس تنازع میں غیرملکی جنگجوﺅں کی شمولیت ہے،اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی ایک رپورٹ کے مطابق اسی ممالک کے لگ بھگ پندرہ ہزار جنگجوﺅں نے عسکریت پسند گروپس کے ساتھ ملکر لڑنے کے لیے عراق اور شام کا رخ کیا ہے جس سے یہ خطہ عالمی جہاد کا سب سے بڑا خطرہ بن چکا ہے۔

آئی ایس نے ساٹھ لاکھ آبادی والے بڑے رقبے پر قبضہ کرلیا ہے جو حجم کے لحاظ سے فن لینڈ اور بیلجئیم سے بھی بڑا ہے اور اس طرح یہ جہادی تحریک دنیا بھر میں انتہا پسندوں کو متاثر کرنے کا ذریعہ بن رہی ہے، وہ ایسے ممالک سے بھی جنگجوﺅں کو اپنی جانب کھینچ رہی ہے جنھیں اب تک عسکریت پسندی سے پاک سمجھا جاتا تھا اور عالمی دہشت گردی میں کسی بھی طرح ان کا حصہ نہیں۔

اگرچہ اقوام متحدہ کی رپورٹ میں جنگجوﺅں کی شہریت کا ذکر نہیں کیا گیا تاہم مانا جارہا ہے کہ ان میں بڑی تعداد مغربی یورپی ممالک جیسے برطانیہ، فرانس، جرمنی اور روس سے وہاں پہنچ رہی ہے، رپورٹس کے مطابق پانچ سو سے زائد برطانوی شہریوں نے اس لڑائی میں شمولیت کے لیے 2011 کے بعد سے خطے کا دورہ کیا ہے، جبکہ کچھ لاطینی ممالک سے بھی جنگجوﺅں کے آنے کی رپورٹس ہیں۔

اتنی بڑی تعداد میں غیرملکی جنگجو جو نسلوں اور ثقافتی پس منظر سے تعلق رکھتے ہو یقیناً سنگین خدشات کا باعث ہیں خاص طور پر یہ حقیقت منظر عام پر آئی ہے کہ جارحانہ انسداد دہشت گردی کی پالیسیوں کے باوجود مغرب میں اس خطرے کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔

یقیناً زیادہ جارحانہ آئی ایس کے ابھرنا عالمی سطح پر عسکریت پسندی کو بڑھاوا دے گا، اگرچہ یہ القاعدہ سے دور ہے مگر یہ نئی تحریک نظریات اور پروپگینڈہ مشینری کے حوالے سے زیادہ باوسائل ہے، وہ شام اور عراق میں آئل فیلڈز پر کنٹرول حاصل کرکے آمدنی حاصل کررہی ہے اور ایک تخمینے کے مطابق وہ روزانہ دس لاکھ ڈالرز کمارہی ہے، نظریاتی طور پر گمراہ غیرملکی جنگجوﺅں کے لیے ریاست اسلامیہ ایک بہترین انتخاب ہے جس کے پلیٹ فارم سے وہ محفوظ جنگ لڑسکتے ہیں۔

اگرچہ القاعدہ اور آئی یکساں اسٹرٹیجک مقصد شیئر کرتے ہیں مگر حکمت عملی اور ترتیب کے لحاظ سے ان میں بہت زیادہ فرق ہے، خلافت کی بحالی کی کشش القاعدہ کی دہشت گردانہ سرگرمیوں سے کہیں زیادہ ہے، مزید یہ کہ سوشل میڈیا کے بہت زیادہ استعمال نے آئی ایس کے لیے غیرملکی جنگجوﺅں کو ریکروٹ کرنا بہت آسان بنادیا ہے۔

اقوام متحدہ کی رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ مزید ممالک کو ان جنگجوﺅں کے چیلنج کا سامنا اس وقت ہوسکتا ہے جب وہ وطن واپس لوٹیں گے، یہ ان جنگجوﺅں کے آبائی ملکوں کے ساتھ ساتھ عالمی سیکیورٹی کے لیے بھی ایک انتہائی خطرناک منظرنامہ پیش کرتا ہے۔

اگرچہ پاکستان میں آئی ایس کو سامنے آئے زیادہ عرصہ نہیں ہوا تاہم اس گروپ کی جانب سے مخصوص قبائلی ایجنسی اور کے پی کے اضلاع میں ہزاروں افراد کو بھرتی کیے جانے کی رپورٹ انتہائی فکرمند کردینے والی ہے۔

یہ امر باعث حیرت نہیں کہ فرقہ وارانہ گروپس خودساختہ سنی خلافت میں بہت زیادہ دلچسپی لے رہے ہیں، یہ تنظٰم دیگر مذہبی گروپس کو بھی اپنی جانب متوجہ کراسکتی ہے اور پاکستانی طالبان کے کچھ دھڑے بھی آئی ایس میں چھلانگ لگاسکتے ہیں۔

اگرچہ پاکستان بہت کچھ بدترین دیکھ چکا ہے مگر آئی ایس اس ملک کی پرتشدد انتہاپسندی اور دہشتگردی کے خلاف جنگ کو مزید مشکل بناسکتی ہے، یہ صورتحال اس لیے بھی زیادہ تشویشناک ہے کہ ہزاروں پاکستانی بھی ابھی عراق اور شام 'مقدس جنگ' میں شرکت کے بعد واپس لوٹیں گے۔

انگریزی میں پڑھیں۔


لکھاری ایک مصنف اور صحافی ہیں۔

زاہد حسین

لکھاری صحافی اور مصنف ہیں. ان کا ای میل ایڈریس zhussain100@yahoo.com ہے.

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

کارٹون

کارٹون : 11 جولائی 2025
کارٹون : 10 جولائی 2025