ایک نیا تجربہ

13 جنوری 2015
صحت کی بنیادی سہولیات کسی بھی بیماری کو سنگین ہونے سے روکتی ہیں، لیکن آبادی کے بڑے طبقے کو یہ سہولیات میسر نہیں۔
صحت کی بنیادی سہولیات کسی بھی بیماری کو سنگین ہونے سے روکتی ہیں، لیکن آبادی کے بڑے طبقے کو یہ سہولیات میسر نہیں۔

کراچی کے مرکز سے دور ابراہیم حیدری کے پاس کورنگی کے علاقے میں سوشل انجینئرنگ کا ایک ایسا تجربہ کیا جارہا ہے جو پاکستان کے صحت کے شعبے میں انقلابی ثابت ہوسکتا ہے۔

یہ نیا اقدام مہرالنسا ہسپتال ہے، دوسرے کسی بھی ہسپتال کی طرح جدید اس ہسپتال کے دروازے غریبوں کے لیے مکمل طور پر کھلے ہوئے ہوں گے۔ ایک دفعہ جب پبلک ٹرانسپورٹ کے روٹس میں ایڈجسٹمنٹ کر کے اس تک رسائی ممکن بنائی جائے گی، تو بڑی تعداد میں لوگوں کی یہاں آمد متوقع ہے۔

مشہور کاروباری اور سماجی شخصیت ہارون عبدالکریم نے یہ ہسپتال تیار کروایا تھا، اور جنوری 2013 میں ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی کے سندھ انسٹیٹیوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹ (ایس آئی یو ٹی) کو عطیہ کردیا تھا۔ عبدالکریم چاہتے تھے کہ مریضوں کو صحت کی سہولیات مکمل طور پر مفت فراہم کی جائیں۔ انہوں نے خاموشی سے کئی ہسپتالوں کا دورہ کیا اور پایا کہ صرف ایس آئی یو ٹی ہی ان کے معیار پر پورا اترتا ہے۔

مہرالنسا کو جو چیز مختلف بناتی ہے، وہ یہ ہے کہ اسے ایک ماڈل کے طور پر تعمیر کیا جارہا ہے۔ اسے صحت کی سہولیات کی وسیع تر فراہمی کے ایس آئی یو ٹی کے مشن میں مرکزی حیثیت حاصل ہوگی۔ چار دہائیوں سے کراچی میں ایس آئی یو ٹی غریبوں کو گردوں کے علاج کی سہولیات فراہم کر رہا ہے۔ لیکن اس کی ابتدا بہت ہی چھوٹے پیمانے سے ہوئی تھی۔

یورولوجی میں اسپیشلائزڈ ہونے کی حیثیت سے ادارہ اپنے قیام سے لے کر اب تک بڑھتا رہا ہے۔ محنت اور عزم کے بعد اگر کوئی چیز کسی ادارے کی ترقی میں کردار ادا کرتی ہے، تو وہ اس کے پیچھے کارفرما فلسفہ ہے۔

ایس آئی یو ٹی کے بانی ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ صحت ہر شخص کا پیدائشی حق ہے، اور اس لیے وہ کسی بھی مریض سے فیس لینے کے حق میں نہیں ہیں، چاہے وہ فیس ادا کرسکتا ہو یا نہیں۔ ان کا طریقہ کار دواؤں کے ساتھ ساتھ محبت، عزت، اور برابری ہے۔ یہی فلسفہ ان کے اسٹاف میں بھی موجود ہے، اور اسی لیے ایس آئی یو ٹی جدید ٹیکنولاجی اور ڈاکٹرز کی مہارت کے حوالے سے اولین درجے کے ہسپتالوں میں شمار ہوتا ہے۔

ان سہولیات اور خدمات کے لیے فنڈز کہاں سے آتے ہیں؟ اخراجات کا ایک حصہ حکومت برداشت کرتی ہے، جو ملک میں صحت کی بڑھتی ہوئی ضروریات کو پورا کرنے میں ناکام ہوچکی ہے۔ اب معاشرہ خود اس کمی کو پورا کرنے کے لیے میدان میں اتر آیا ہے۔ اخراجات پر قابو پا کر لیکن کوالٹی پر کوئی سمجھوتہ نہ کر کے ایس آئی یو ٹی نہ صرف قائم رہنے میں کامیاب ہے، بلکہ تیزی سے بڑھ بھی رہا ہے۔

ڈاکٹر رضوی اپنے فلسفے کو ایک تکون کی مدد سے سمجھاتے ہیں، جس کے درمیان میں مریض ہے۔ تکون کے تین کونے ڈاکٹر، معاشرے، اور حکومت کی نمائندگی کرتے ہیں۔

تو ان حدود کے اندر رہتے ہوئے توسیع کس طرح کی جاتی ہے؟ توسیع ہمیشہ قدم بہ قدم اور ضروریات کے تحت کی جاتی ہے۔ ہسپتال تک رسائی ان میں سے ایک ہے۔ اکثر اوقات مریض طویل سفر طے کر کے ہسپتال تک آتے ہیں، اس لیے ہسپتال میں ہر ڈپارٹمنٹ، ہر مشین، اور ہر سروس کا اضافہ مریضوں کی ضروریات کو مدِنظر رکھتے ہوئے ہی کیا گیا ہے۔ اور اس میں اس بات کا خاص خیال رکھا گیا ہے کہ تمام سہولیات ایک ہی جگہ پر میسر ہوں۔

یورولوجی سے شروع کرتے ہوئے اب اس کی سہولیات میں ڈائلائیسز، نیفرولوجی، ذیابیطس، بچوں کے امراض، انفیکشن سے پھیلنے والے امراض، پتھری، اور رسولیوں کے علاج کی سہولیات، امراض کی تشخیص کی ٹیکنولاجیز، ایک جدید لیبارٹری، اور کئی دیگر سہولیات اور خدمات شامل ہیں۔ شہر بھر میں سیٹلائٹ ڈائیلائسز سینٹر قائم ہیں۔ سکھر میں بھی ایک ہسپتال ہے جو یورولوجی کی خدمات فراہم کرتا ہے۔

اس پورے تناظر میں ہونا تو یہ چاہیے کہ مہرالنسا ہسپتال ایک نئی طرز کے ہسپتال کے طور پر ابھرے، اور جس کا باریکی سے مشاہدہ کیا جائے۔ ڈاکٹر الطاف ہاشمی، ڈاکٹر منظور حسین، اور ڈاکٹر نقی ظفر، جو تینوں اپنی اپنی فیلڈز میں اسپیشلسٹ ہیں، نے مجھے دکھایا کہ کس طرح یہ توسیعی منصوبہ ہسپتال کو بنیادی صحت یعنی پرائمری اور سیکنڈری سطح کی خدمات تک پھیلانے کی کوشش ہے۔

مہرالنسا ہسپتال کو ایس آئی یو ٹی کو عطیہ کردینے کے دو ماہ کے اندر اندر ہی یہاں 20 بستروں پر مشتمل ایک ڈائیلائسز سینٹر قائم ہوچکا ہے۔ یہاں روزانہ ڈائیلائسز کے 60 سیشن کیے جاتے ہیں۔ اس کے بعد دوسرے ڈپارٹمنٹس کی باری آئی، اور اب طبی لحاظ سے ہماری آبادی کے سب سے غیر محفوظ طبقے یعنی بچوں کے لیے بھی صحت کی خدمات دستیاب ہیں۔ ہفتے میں 6 پیڈیاٹرک او پی ڈی ہوتی ہیں، جبکہ بالغوں کے لیے میڈیسن، یورولوجی، اور نیفرولوجی کی او پی ڈیز موجود ہیں۔ چھوٹی سرجریز کے لیے ایک آپریشن تھیٹر بھی موجود ہے۔ توقع کی جارہی ہے کہ بہت جلد ہسپتال کے پاس اپنی لیبارٹری، ایکسرے یونٹ، الٹراساؤنڈ سروس، ایم آر آئی، پی ای ٹی، سی ٹی، اور لیتھوٹریپٹر کی سہولت موجود ہوگی۔

جسے ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی ایس آئی یو ٹی ہیلتھ کیئر سسٹم کہتے ہیں، مہرالنسا ہسپتال اس کی جانب ایک قدم ہے۔ اس وقت دنیا بھر میں ہیلتھ سیکٹر ان ممالک میں بھی مشکلات کا شکار ہے، جو اپنے شہریوں کو مضبوط سوشل سکیورٹی کے ذریعے تحفظ فراہم کرتے تھے۔ ایسی صورتحال میں ترقی پذیر ممالک کے لیے چیلنجز بہت زیادہ ہیں۔ جدید لبرل ازم کے تحت حکومتیں خود کو سماجی ذمہ داریوں سے علیحدہ کرتی جارہی ہیں، جس سے غریب لوگ پرائیویٹ سیکٹر میں موجود مگرمچھوں کے رحم و کرم پر رہ گئے ہیں۔

اس تناظر میں ایس آئی یو ٹی ماڈل امید کی ایک کرن ہے۔ مہرالنسا ہسپتال رفتہ رفتہ مضبوط ہوتا جارہا ہے۔ اس کی فنڈنگ ایس آئی یو ٹی کر رہا ہے جو ہسپتال کے لیے اپنا اسٹاف بھی فراہم کرتا ہے۔

اس طرح ایس آئی یو ٹی کا فلسفہ بنیادی صحت (پرائمری ہیلتھ کیئر) تک پھیل رہا ہے، جو پاکستان میں سب سے زیادہ نظرانداز کیا گیا شعبہ ہے۔ اس کی وجہ سے اسپیشلسٹ سطح کی طبی ضروریات میں اضافہ ہورہا ہے، کیونکہ صحت کی بنیادی سہولیات کسی بھی بیماری کو سنگین ہونے سے روکتی ہیں، لیکن یہ سہولیات میسر نہیں۔ اس طرح حکومت، معاشرہ، ڈاکٹر والا ماڈل بنیادی صحت کے لیے اپنانے کا تجربہ بھی کیا جارہا ہے۔ یہ لوگوں کی ضرورت ہے جس سے خود کو علیحدہ نہیں کیا جاسکتا۔

انگلش میں پڑھیں۔

www.zubeidamustafa.com

یہ مضمون ڈان اخبار میں 31 دسمبر 2014 کو شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں