میڈیا کی آزادی: 180 ملکوں میں پاکستان کا 159واں نمبر

04 مئ 2015
کراچی میں صحافی میڈیا کی آزادی پر پہرے بٹھانے کے خلاف احتجاج کررہے ہیں۔ —. فائل فوٹو اے ایف پی
کراچی میں صحافی میڈیا کی آزادی پر پہرے بٹھانے کے خلاف احتجاج کررہے ہیں۔ —. فائل فوٹو اے ایف پی

واشنگٹن: دنیا بھر میں میڈیا کی آزادی کی مہم چلانے والی تنظیم ’رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز‘ نے اتوار کو پریس کی آزادی کے عالمی دن کے موقع پر ایک پریس کی آزادی کی ایک فہرست جاری کی ہے۔

اس فہرست کے مطابق میڈیا کی آزادی کے لحاظ سے فن لینڈ سرفہرست ملک ہے، اس کے بعد اسکینڈے نیویا کے دو ممالک ناروے اور ڈینمارک ہیں۔

اریٹیریا اس فہرست میں ترکمانستان اور شمالی کوریا کے ساتھ سب سے نچلے درجے پر ہے۔

چین، کیوبا، زمبابوے اور افغانستان بھی نچلے درجوں پر ہیں۔

امریکا 2010ء میں اس حوالے سے بیسیویں درجے پر تھا، لیکن اب 2015ء میں 49 پر چلا گیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہیٹی، بورکینافاسو، نیمیبیا اور ایل سلواڈور اس سے چار درجے اوپر ہیں۔

مزید یہ کہ سرینام، سمونا اور مشرقی کیربیئن کادرجہ امریکا سے بلند ہے۔

صحافیوں پر پولیس اور عام لوگوں کے متواتر حملے، خبر کے ذرائع کو ظاہر کرنے کے لیے جبر اور صحافیوں کو تحفظ دینے والے قانون کی منظوری میں حکومتی ناکامی اس زوال کے اسباب ہیں۔

پاکستان 180 ملکوں کی اس فہرست میں 159ویں درجے پر ہے۔

اس رپورٹ میں نشاندہی کی گئی ہے کہ پاکستان کی ایک پارلیمانی کمیٹی نے انٹرنیٹ کو کنٹرول کرنے کے لیے ایک سیاہ قانون کی منظوری دی ہے۔

رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز نے کہا ہے کہ گزشتہ مہینے تیار کیا گیا الیکٹرانک جرائم کو روکنے والا ایکٹ کو پاکستان میں شہری آزادی کو کمزور اور میڈیا اور اطلاعات کی آزادی کو محدود کردے گا۔

اس میں یہ بھی نشاندہی کی گئی ہے کہ یہ بل ایسی شقوں پر مشتمل ہے، جن سے حکومت کو کسی بھی مواد کو جج کے حوالے کیے بغیر سینسر کرنے اور بہت سی آن لائن سرگرمیوں کو جرم قرار دینے، اور انٹرنیٹ صارف کے ڈیٹا تک کسی عدالتی کنٹرول کے بغیر رسائی حاصل کرنے کی اجازت مل جائے گی۔

رپورٹ میں آئی ایس آئی سمیت فوج پر تنقید کرنے والے میڈیا گروپس پر پُرتشدد حملوں کے دوبارہ پھوٹ پڑنے کا حوالہ بھی دیا ہے۔

مزید یہ کہ 2014ء کے دوران غیرریاستی عناصر نے بھی صحافیوں کو نشانہ بنائے رکھا۔

رپورٹ میں نشاندہی کی گئی ہے کہ پاکستان تحریک انصاف نے بھی ایسے صحافیوں پر حملے کیے، جنہوں نے اس کی سرگرمیوں پر تنقید کی تھی۔

دو صحافیوں کو اکتوبر میں گولی مار کر ہلاک کیا گیا تھا، چنانچہ اگست سے اب تک ہلاک ہونے والے صحافیوں کی تعداد چار ہوگئی۔

جولائی کے دوران نامعلوم مسلح افراد نے کراچی میں ایک کیبل آپریٹر کو نذرآتش کردیا تھا۔

اسی مہینے میں نامعلوم افراد نے پاکستان ٹیلی ویژن چینل کے پشاور بیورو چیف کے گھر پر بم سے حملہ کیا تھا۔

مئی میں ایک صحافی پر ملتان میں حملہ ہوا تھا، جبکہ جون میں اخبارات لے جانے والے ٹرک کو آگ لگادی گئی تھی۔

جون میں پاکستان الیکٹرانک ریگولیٹری اتھارٹی نے ایک ٹیلی ویژن چینل کی نشریات کو مختلف علاقوں میں عارضی طور پر بند کردیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں