بابری مسجد کی برسی پر سخت سیکیورٹی

06 دسمبر 2015
بابری مسجد کو  انتہا پسند ہندوؤں نے رام کی جنم بھومی قرار دے کر مسمار کردیا تھا۔ —. فائل فوٹو
بابری مسجد کو انتہا پسند ہندوؤں نے رام کی جنم بھومی قرار دے کر مسمار کردیا تھا۔ —. فائل فوٹو

فیض آباد: ہندوستان کی ریاست اتر پردیش کیے ضلع فیض آباد خاص طور پر اس کے شہر اودھیا میں بابری مسجد کے انہدام کے دن پر سخت سیکیورٹی کے انتظامات کیے گئے ہیں۔

ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق بابری مسجد کے انہدام کی 23ویں برسی پر ہندو انتہا پسند تنظیم ویشوا ہندو پریشد (وی ایچ پی) کی جانب سے پیر کے روز بڑے جلسے کا امکان ہے، جس پر ضلعی انتظامیہ نے سیکیورٹی انتظامات سخت کیے ہیں۔

تصاویر دیکھیں : بابری مسجد کے انہدام کی برسی
بابری مسجد کو 1992 میں منہدم کیا گیا تھا... فوٹو: بشکریہ دی ہندو
بابری مسجد کو 1992 میں منہدم کیا گیا تھا... فوٹو: بشکریہ دی ہندو

مقامی انتظامیہ نے ایودھیا میں اس مقام پر اہلکاروں کی بڑی تعداد تعینات کرکے امن عامہ کی صورتحال برقرار رکھنے کی منصوبہ بندی کی ہے۔

اطلاعات کے مطابق خفیہ اداروں کی ایسی رپورٹس موجود ہیں کہ وی ایچ پی کے جلسے کے موقع پر بد امنی کا اندیشہ ہے۔

وی ایچ پی کے ترجمان شرد شرما نے بھی کہا ہے کہ پیر کے روز ہندووں کا مذہبی دن ’ہندو سوابھی مان دیواس‘ ہے جس کے لیے بڑی تعداد میں لوگوں کو مدعو کیا گیا ہے۔

فیض آباد کے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ انیل دہینگڑا کا کہنا تھا کہ انتظامیہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی برقرار رکھنے کے لیے حالات پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے۔

مزید پڑھیں : 'رام کی جنم بھومی ایودھیا میں نہیں'

انیل دہینگڑا نے مزید کہا کہ فیض آباد اور ایودھیا میں سخت سیکیورٹی کے لیے انتظامات کیے گئے ہیں۔

یاد رہے کہ رام کی جنم بھوم قرار دیتے ہوئے بابری مسجد کو 1992 میں انتہا پسند ہندوؤں کے ہاتھوں مسمار کر دیا گیا تھا۔

بھارتیہ جنتا پارٹی نے ایل کے اڈوانی کی قیادت میں سخت گیر تنظیموں وشو ہندو پریشد، بجرنگ دل اور شیو سینا کے ساتھ رام مندر کی تعمیر کے لیے ایک تحریک چلائی تھی۔

تحریک کے دوران 6 دسمبر 1992 کو ہزاروں ہندو کارسیوکوں نے بی جے پی اور وشو ہندو پریشد کے اعلیٰ سطح کے رہنماؤں اور نیم فوجی دستوں کے سینکڑوں مسلح جوانوں کی موجودگی میں تاریخی مسجد کو منہدم کر دیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں