عسکریت پسند ابھی ختم نہیں ہوئے

شائع December 16, 2015 اپ ڈیٹ December 17, 2015
بینش کی ایک یادگار تصویر  جس میں وہ کلاس میں طلباء کو پڑھاتے ہوئے نظر آرہی ہیں—۔
بینش کی ایک یادگار تصویر جس میں وہ کلاس میں طلباء کو پڑھاتے ہوئے نظر آرہی ہیں—۔

ہر ہفتے کے دن ساڑھے پانچ سالہ ہبہ ایک کاغذ پر کچھ بنانے کی کوشش کرتی ہے تاکہ اپنی والدہ کو دکھا سکے جو گھر سے کچھ فاصلے پر موجود قبرستان میں اپنی آخری آرام گاہ میں ابدی نیند سو رہی ہیں. ہبہ کے والد عمر زیب بٹ نے اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ ’وہ یہاں سے 5 منٹ کے فاصلے پر ہے‘۔

بینش کی المناک موت کے بعد عمر اور ان کی 3 بیٹیوں ساڑھے 5 سالہ ہبہ، تین سال سے کچھ بڑی عنایہ اور ڈیڑھ سالہ عفاف کے لیے گذشتہ سال انتہائی جدوجہد اور صبر آزما گزرا ہے.

بینش آٹھویں جماعت کے طالب علموں کو کمپیوٹر سائنس پڑھاتی تھیں اور اُن 150 طالب علموں اور اسٹاف اراکین میں شامل ہیں، جو گذشتہ سال 16 دسمبر کے پشاور آرمی پلک اسکول حملے میں شہید ہوئے۔

پشاور میں ایک موبائل فون کمپنی میں پبلیک ریلیشنز آفیسر کے طور پر کام کرنے والے عمر کا کہنا تھا کہ ’یہ سال مشکل گزرا ہے‘. ان کی محبت کی شادی تھی جو یونیورسٹی میں ملاقات کے دوران ہوئی تھی۔

اس المناک واقعے کے روز بھی عمر نے معمول کے مطابق گھر سے نکلنے سے قبل اپنی اہلیہ کو فون کیا تھا۔

عمر کو اب بھی وہ واقعہ یاد ہے، ’وہ 9 بجکر 37 منٹ کا وقت تھا، کال تقریباً 41 سیکنڈ تک جاری رہی، تاہم دوسری جانب سے آواز نہیں آرہی تھی‘۔

9 بجکر 38 منٹ پر عمر اور اپنے پیاروں کو کھو دینے والے دیگر افراد کو فوج نے بتایا کہ خود کش بمبار اسکول میں داخل ہوگئے ہیں، وہ عمارت کی عقبی جانب سے داخل ہوئے تھے.

وہ دفتر کے لیے روزانہ وہی راستہ لیتے ہیں اور اسکول کے پاس سے گزرتے ہیں. اس وقت کوئی سکیورٹی، کوئی ہلچل، کوئی ناکہ بندی نہیں تھی. تقریباً 10 بجکر 30 منٹ پر عمر کو ایک کال موصول ہوئی، جس میں انہیں بتایا گیا کہ اسکول میں فائرنگ کا واقعہ رونما ہوا ہے۔

ہبہ اور عنایہ اس بدقسمت اسکول کے قریب ہی موجود فوج کے تحت چلنے والے کنڈرگارٹن میں موجود تھیں. فوج نے ان دونوں بہنوں کو دیگر پھنسے ہوئے افراد کے ساتھ نکالا اور انہیں عمر کے بھائی نے وصول کیا، جبکہ عمر خود اپنی اہلیہ کو تلاش کر رہے تھے۔

عمر زیب بٹ اپنے خاندان کے ساتھ.
عمر زیب بٹ اپنے خاندان کے ساتھ.

اس کے بعد جو ہوا وہ مزید تکلیف دہ تھا۔ جب شام ہوئی تو عمر لوگوں کے ایک ہجوم کے ساتھ کمبائنڈ ملٹری ہسپتال میں داخل ہونے کے لیے راستہ تلاش کررہا تھا جو سب اپنے پیاروں کے بارے میں جاننا چاہتے تھے، اور ان کی زندگی یا موت کے بارے میں بالکل لاعلم تھے.

عمر نے اپنی محبوب اہلیہ کو ان کے سوئیٹر کی مدد سے شناخت کیا، جن کی لاش کو سفید رنگ کے کپڑے سے ڈھانپا گیا تھا، جبکہ شناخت کے لیے اس پر نمبر 106 درج تھا۔

اُس دن کے بعد سے عمر ہر ہفتے اپنی بیٹیوں کو ان کی ماں کی قبر پر لے جاتے ہیں اور اپنی بیٹیوں کو بتاتے ہیں کہ ’یہ تمہاری ماں کا نیا گھر ہے، یہ وہ جگہ ہے جہاں وہ اب رہیں گی۔۔۔ وہ جنت میں ہیں‘۔

شاید ایسا کرنے سے عمر کی بیٹیوں کا درد کم ہوتا ہو، لیکن دیگر افسردہ والدین اور خاندانوں کی طرح عمر کے کئی سوالات ہیں، جن کا اب تک جواب نہیں مل سکا۔

بینش کے بارے میں مزید یہاں جانیے.

اس قتلِ عام کے اسباب، سیکیورٹی فورسز کی جوابی کارروائی اور اس کا وقت، اور اِس واقعے کے حوالے سے خفیہ اطلاعات موجود تھیں؟ اور اگر موجود تھیں تو کیا سانحے کو ٹالا نہیں جاسکتا تھا؟ اس کے علاوہ بھی دیگر بڑے سوالات موجود ہیں۔ کیا واقعی دہشت گردوں کو شکست دی جاچکی ہے اور ان کی کمر توڑی جا چکی ہے؟ اور آرمی پبلک اسکول حملے میں کون سا عسکریت پسند گروپ ملوث تھا؟

کیا کشت و خون میں ملوث تمام ملزمان کو انصاف کے کٹہرے میں لایا گیا ہے؟ کیا اُن کے پاس اب بھی ایسی ہی کارروائی یا دیگر بڑے دہشت گردی کے حملے کرنے کی صلاحیت موجود ہے؟ اور یہ کہ آج عسکریت پسندی کے خلاف قوم کہاں کھڑی ہے اور ہم اس کے بعد کہاں جائیں گے؟

کیا عسکریت پسندی کو شکست دی جاچکی ہے؟

گذشتہ برس جون میں آپریشن ضرب عضب کے آغاز کے بعد پاکستان میں عسکریت پسندی کا منظرنامہ تقریباً تبدیل ہوگیا ہے۔ عسکریت پسندوں کو قبائلی علاقوں میں ان کے گڑھ اور محفوظ ٹھکانے شمالی وزیرستان اور خیبر کے قبائلی خطے میں موجود وادی تیراہ سے نکالا جاچکا ہے. مگر اب بھی شمالی اور جنوبی وزیرستان میں چند علاقوں، وادی شوال کے ایک حصے، اور افغانستان سے لگنے والی تیراہ کی ایک چھوٹی وادی رجگال میں چند عسکریت پسند موجود ہیں.

اس کے علاوہ یہاں وہاں کچھ ذیلی گروہ موجود ہیں، خاص طور پر ضلع ٹانک اور فرنٹیئر ٹانک می. پھر انٹیلیجنس اداروں کی جانب سے سلسلہ وار کارروائیوں کے باوجود کئی 'سلیپر سیل' ابھی بھی باقی ہیں.

پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات، جن کی تعداد سال 2010 میں 2061 ریکارڈ کی گئی تھی، وہ اس سال 1109 تک رہ گئی ہے، تقریباً 50 فیصد کم۔ دوسری جانب ہلاکتوں کی تعداد بھی کم ہو کر 796 ہو گئی ہے جن میں 443 عام شہری اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے 353 اہلکار شامل ہیں۔

لیکن اس سے بھی بڑا سوال یہ ہے کہ کیا دہشت گردوں کو شکست دی جاچکی ہے؟ حکومت اور سکیورٹی حکام کہتے ہیں کہ ایسا ہی ہے. لیکن کیا ان کو ختم کیا جاچکا ہے؟ اس کا جواب 'نہیں' ہے۔

فاٹا میں اپنے محفوظ ٹھکانوں سے نکال دیے جانے پر عسکریت پسند سرحد پار چلے گئے ہیں اور وہاں بیٹھ کر پاکستان کے اندر حملوں کی منصوبہ بندی کرتے ہیں.

سکیورٹی حکام کا کہنا ہے کہ پاکستانی عسکریت پسندوں کے مختلف گروہ اپنے افغان میزبانوں کے علم اور کچھ مواقع پر ان کی اجازت سے افغان صوبوں ننگرہار، کنڑ، پکتیکا اور خوست سے اپنی کارروائیاں کر رہے ہیں۔

یہ وہی جگہیں ہیں جہاں سے عمر نارے گروپ نے آرمی پبلک اسکول اور پشاور کے بڈھ بیر ایئر بیس پر حملے کی منصوبہ بندی کی اور منصوبے کو عملی جامہ پہنایا.

شکارپور اور پشاور کی امام بارگاہوں، لاہور میں یوحناآباد کے گرجا گھروں پر حملوں، کوئٹہ میں مسافروں کے قتل اور کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کی وارداتوں سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ عسکریت پسند اب بھی تشدد پھیلانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

ایک سینیئر سکیورٹی عہدیدار سے جب سوال کیا گیا کہ کیا دہشت گرد آرمی پبلک اسکول یا مہران ایئر بیس یا دیگر حملوں کی طرز کے بڑے حملے کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں؟ تو ان کا جواب تھا، 'بالکل، اس میں کوئی شبہ نہیں ہے'۔

انھوں نے سوال کیا، 'خون اور تباہی کے بیج بونے کے لیے کیا درکار ہوتا ہے'؟ پھر خود ہی جواب دیتے ہوئے کہا: 'صرف مٹھی بھر عسکریت پسند'۔

ان کا مزید کہنا تھا: 'عسکریت پسندوں کو نکالا جا چکا ہے، مگر وہ ختم نہیں ہوئے، بالکل بھی نہیں۔'

قومی ایکشن پلان

آپریشن ضربِ عضب نے عسکریت پسندوں کی اہلیت، نقل و حمل اور کارروائیاں کرنی کی آزادی پر کاری ضرب لگائی ہے۔

مگر قومی ایکشن پلان جسے اس سانحے کے فوراً بعد تیار اور منظور کیا گیا تھا، کے عملدرآمد میں حکومت اتنی پرجوش اور پرعزم نظر نہیں آتی۔

جو حکام اس پر ہونے والے عملدرآمد کا جائزہ لے رہے ہیں، وہ انتظامی اقدامات یعنی دہشتگردی کے مجرمان کو پھانسیوں اور خصوصی اور فوجی عدالتوں کے قیام کا حوالہ دیتے ہوئے پیشرفت کو تسلی بخش قرار دیتے ہیں.

فوج نے 11 عدالتیں قائم کیں، اور ان میں 142 مقدمات بھیجے گئے، جس میں سے 55 مقدمات کا فیصلہ ہوا اور 31 دہشتگردوں کو پھانسیاں ہوئیں، جبکہ 87 مقدمات ابھی زیرِ التوا ہیں.

اس کے علاوہ نفرت انگیز تقاریر اور انتہاپسند مواد کے خلاف بھی پیش رفت دیکھنے میں آئی ہے، ایک خصوصی انسدادِ دہشتگردی فورس قائم کی گئی ہے، کراچی آپریشن بھی جاری ہے جبکہ نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی (نیکٹا) کو بھی مضبوط کیا گیا ہے.

مگر دہشتگردوں کی مالی امداد روکنے، مدارس میں اصلاحات لانے، اقلیتوں کے خلاف تشدد، نفرت اور دہشتگردی پھیلانے کے لیے سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کے استعمال، فاٹا اصلاحات، بلوچستان میں سیاسی اور انتظامی اصلاحات اور ترقیاتی کام، اور افغان مہاجرین کی واپسی سے متعلق مسائل پر کوئی خاطر خواہ اور تسلی بخش پیش رفت دیکھنے میں نہیں آئی ہے.

اس کے علاوہ قانونی اور عدالتی اصلاحات لانے کا عمل بھی سست روی کا شکار ہے. اس ماہ کے آغاز میں وزیرِ اعظم نے وزیرِ ماحولیاتی تبدیلی زاہد حامد کی زیرِ سربراہی ایک اعلیٰ سطح کی کمیٹی قائم کی ہے.

سب سے زیادہ اہم یہ بات ہے کہ سخت گیر دہشتگردوں کے مقدمات نمٹانے کے لیے فوجی عدالتوں قائم کیا گیا تھا، مگر ان کا مینڈیٹ صرف دو سال کا ہے. ایک سال گزر چکا ہے، اور ایک سال باقی ہے، اس کے بعد کیا ہوگا؟ کوئی نہیں جانتا.

یہ مضمون ڈان اخبار میں 16 دسمبر 2015 کو شائع ہوا.

ڈان کا اے پی ایس حملے کی پہلی برسی پر شہدا کی یاد میں خصوصی فیچر


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں.

اسماعیل خان

اسماعیل خان ڈان اخبار پشاور کے بیورو چیف ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

کارٹون

کارٹون : 28 جون 2025
کارٹون : 27 جون 2025