کیا لوک روایات انگلش میں سمجھی جا سکتی ہیں؟

اپ ڈیٹ 21 مارچ 2018
ہم انگریزی مصنفین اس وقت مقامی مصنفین سے شاید زیادہ ''کامیاب'' ہوں، لیکن کیا کوئی ہمارے بعد ہمارے کام کو یاد رکھے گا؟ — فوٹو شامین خان بروہی/ڈان ڈاٹ کام۔
ہم انگریزی مصنفین اس وقت مقامی مصنفین سے شاید زیادہ ''کامیاب'' ہوں، لیکن کیا کوئی ہمارے بعد ہمارے کام کو یاد رکھے گا؟ — فوٹو شامین خان بروہی/ڈان ڈاٹ کام۔

ہم مسجد کے پیچھے واقع عمارت کے اندر ایک ہال میں کھڑے تھے۔ ایسا کہا جاتا ہے کہ وارث شاہ جب مسجد میں مولوی ہوا کرتے تھے، انہی دنوں انہوں نے اس ہال کے تہہ خانے میں بیٹھ کر اپنی نظم ہیر لکھی تھی۔

چھجو بھگت کا مشہور چوبارہ مسجد کے بالکل برابر میں واقع ہے۔ ایسا مانا جاتا ہے کہ ایک بیوہ ہندو عورت بھاگ بھری، جو پابندی کے ساتھ مندر آیا کرتی تھی، اس کی بے لوث محبت سے متاثر ہو کر وارث شاہ نے ہیر دوبارہ لکھی تھی۔

وہ مسجد جہاں وارث شاہ نے ہیر لکھی تھی۔ — فوٹو بشکریہ لکھاری۔
وہ مسجد جہاں وارث شاہ نے ہیر لکھی تھی۔ — فوٹو بشکریہ لکھاری۔

ہیر کے مختلف اشعار ہال کی دیواروں پر لکھے ہیں۔ ان میں سے یہ بھی ہے:

لمبے دیس دا ملک مشہور ملکا

جتھے شعر کیتے یاراں واسطے میں

(اس لامبا جنگل کے مشہور شہر ملکا میں،

میں نے شعر لکھے اپنے دوستوں کے لیے)

کیونکہ میرا ثقافت اور جغرافیے سے گہرا تعلق رہا ہے، اس لیے میرا یہ ماننا ہے کہ کسی بھی ادب کا منصفانہ ترجمہ نہیں کیا جا سکتا۔

زیادہ سے زیادہ آپ صرف الفاظ کی زبان تبدیل کرنے کی امید کرسکتے ہیں؛ مگر جب بات شاعری کی ہو تو یہ کام اور بھی کٹھن ہوجاتا ہے۔

مثلاً اوپر لکھے شعر میں لفظ 'لمبے' لکھا ہے جس کا مطلب لمبا یا طویل ہی ہوگا، مگر یہاں لمبے سے مراد لمبا نام کا ایک جنگل ہے جس کے بیچوں بیچ شہر ملکا ہنس واقع تھا۔ اس کا نام لمبا اس لیے پڑا کیونکہ یہ جنگل دو ندیوں کے بیچ میں دور دور تک پھیلا ہوا تھا۔ اس خطے کی تاریخ اور جغرافیے سے لاعلمی کی وجہ سے لفظ کا اصل مطلب ہی کھو جاتا ہے۔

نظم کے ایک اور حصے میں وارث شاہ لکھتے ہیں:

تمبا وجتا تھمن نوں جاوے

تے رُکھن والے ڈھاڈ وجتی

(وہ تمبا بجاتے تھمن جاتے ہیں

اور ان کے ساتھ رُکھن کی ڈھاڈ بھی ہے)

قصور اور رائے ونڈ کے بیچ میں ایک گاؤں رام تھمن واقع ہے جہاں ہر سال بیساکھی کا میلہ منایا جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ بیساکھی میلے میں بٹوارے سے قبل والا جوش و خروش اور جشن باقی نہیں رہا لیکن اب بھی یہاں خطے بھر سے سینکڑوں عقیدت مند آتے ہیں۔

میں پہلی بار رام تھمن گاؤں تب گیا تھا جب میں اپنی پہلی کتاب پر کام کر رہا تھا۔
میں پہلی بار رام تھمن گاؤں تب گیا تھا جب میں اپنی پہلی کتاب پر کام کر رہا تھا۔

اوپر لکھے شعر میں وارث شاہ اسی میلے کا حوالہ دے رہے ہیں۔ وارث شاہ کی شاعری کو پنجاب کی ثقافتی اور تاریخی معلومات کے بغیر سمجھنا ویسا ہی ہوگا جیسے یونانی دیومالائی کہانیوں کو جانے بغیر اوڈیسز پڑھنا۔

مزید یہ کہ یہاں ڈھاڈ اور تمبا لفظ بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ لوک شاعری کی روایت میں اسے جنسی عمل کا استعارہ بھی تصور کیا جاتا ہے۔ یاد رکھیں کہ جب وارث شاہ تھمن میں جشن کا ذکر کرتے ہیں تو اس کا مطلب وہ ہیر کی بارات کے بارے میں بتا رہے ہیں۔

ان دو اشعار میں کئی مفاہیم موجود ہیں جو پنجابی لوک، تاریخ، مذہب اور جغرافیے کی واضح تصویر پیش کرتے ہیں۔ یہ شعر سے کہیں زیادہ اہمیت رکھتے ہیں کیونکہ اس میں ثقافت کی روح نظر آتی ہے۔


میں نے لاہور کے ایک انگلش میڈیم اسکول سے تعلیم حاصل کی جہاں اردو کو نظر انداز کیا جاتا تھا اور پنجابی کا باقاعدہ مذاق اڑایا جاتا تھا۔ وارث شاہ کے اشعار میں چھپے مفاہیم میں سمجھ ہی نہیں پاتا تھا۔

اسکول میں ہمیں شیکسپیئر کی مشہور تحاریر میکبیتھ اور مرچنٹ آف وینس کا اصلی متن پڑھایا گیا تھا۔ جس طرح ہم پنجابی ثقافت کو جانے بغیر ہم وارث شاہ کو نہیں سمجھ سکتے، اسی طرح آپ شیکسپیئر کے دور کی ثقافت کو سمجھے بغیر ان کی شاعری کے حسن کی داد نہیں دے پائیں گے۔

میں نے شیکسپیئر کے جتنے بھی لیکچر اٹینڈ کیے، انہوں نے مجھے ادب سے قریب کرنے کے بجائے دور کر دیا۔

میرے لیے ادب ایسی چیز بن گئی تھی جسے مکمل طور پر سمجھا نہیں جاسکتا تھا — کیونکہ اس ادب کا تعلق دوسرے لوگوں سے تھا جو دنیا کے مختلف حصے میں رہتے تھے۔

انگریزی زبان میں مہارت نے بطور مصنف مجھے اور میرے ساتھیوں کو ملک کے اندر کئی معاشی مواقع فراہم کیے ہیں۔ پاکستان میں کسی مقامی زبان کے بجائے انگریزی زبان میں لکھنا کہیں زیادہ منافع بخش ہے۔

اس طرح آپ کو زیادہ پیسے ملتے ہیں، زیادہ تعداد میں پڑھنے والے، اور سب سے اہم بات یہ کہ اس طرح آپ کو عالمی سطح پر پاکستانی ادب کی نمائندگی کا اعزاز ملتا ہے۔

بلاشبہ اس میں کوئی برائی نہیں۔

پاکستانی انگریزی ادب پاکستانی ثقافت کے ایک پہلو کی نمائندگی ضرور کرتا ہے، مگر ایک محدود حصے کی۔

شہری متوسط طبقے سے جنم لینے والا یہ ادب مصنف کے ذاتی تجربات تک محدود ہوجاتا ہے۔ ان کے تجربات ظاہر ہے کہ دیگر پاکستانیوں کے تجربات سے کم اہم نہیں ہوتے، لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ ان میں عالمی کشش نہیں ہوتی۔

پاکستان میں جب بھی انگریزی تحریر میں عام لوگوں کے تجربات کے بارے میں باتیں کی جاتی ہیں، وہ سیاستدانوں اور صحافیوں کی دقیانوسی باتوں سے زیادہ مختلف نہیں ہوتی۔

میں خود کو بھی اسی دائرے میں شامل کرتا ہوں۔ میں اس خطے کے لوک ادب اور تاریخ کے بارے میں بات کرنے کی کوشش کرتا بھی ہوں تو زبان سے ناواقفیت کی وجہ سے اس گہری ثقافت کا ایک چھوٹا سا حصہ ہی سمجھ پاتا ہوں، اور اپنی تحریر میں اس سے بھی مختصراً شامل کر پاتا ہوں۔

میں چاہے جتنی بھی کوشش کرلوں، لیکن آگ کا دریا جیسا شاہکار نہیں لکھ سکوں گا، جس میں میرے مطابق قرۃ العین حیدر نے تمام ثقافتوں کو خوبصورت ترین انداز میں پیش کیا ہے۔ کتاب میں مختلف ادوار اور جغرافیوں کو واضح کرنے کے لیے انہوں نے کرداروں کو مقامی لہجہ دیتے ہوئے تحریر کیا ہے۔

مارک ٹوئین نے بھی اپنی کتاب ہکلبیری فِن میں بھی یہی طریقہ استعمال کیا ہے جب کہ گریٹ ایکسپیکٹیشنز میں چارلس ڈکنز نے بھی یہی کیا ہے۔

لوگوں اور ثقافت کی نمائندگی صرف اس برادری کی اپنی زبان میں واضح کی جاسکتی ہے کیونکہ یہ اس برادری کی پیداوار ہوتے ہیں۔ جبکہ ایک غیر مقامی زبان میں یہ نمائندگی کسی تماشے سے کم نہیں ہوگی۔

المیہ یہ ہے کہ بھلے ہی پاکستان میں یہ چیز بڑھتی ہوئی نظر آ رہی ہے، مگر پھر بھی پاکستان میں قرۃ العین حیدر جیسی سطح کا انگریزی مصنف پیدا نہیں ہو سکتا۔

اس نقطے پر مجھے اقبال قیصر کی وہ بات یاد آگئی جو انہوں نے مجھ سے 17 ویں صدی کے مشہور صوفی شاعر سلطان باہو پر بات کرتے وقت کچھ سال قبل کہی تھی۔

''کیا تم جانتے ہو کہ سلطان باہو نے فارسی میں 100 سے زائد کتابیں لکھیں؟ لیکن آج انہیں صرف ایک پنجابی نظم، سہہ حرفی، کی وجہ سے یاد کیا جاتا ہے۔ بہت ہی کم لوگ ان کی فارسی کتابوں کے نام جانتے ہوں گے مگر پنجاب میں ہر کسی نے سہہ حرفی نظم ضرور سنی ہوگی۔"

گرو نانک، بابا فرید، شاہ حسین اور بلھے شاہ، ان تمام کی کہانیاں بھی ایک سی ہیں۔ یہ سب عربی اور فارسی پر بڑی مہارت رکھتے تھے جو ان دنوں اشرافیہ کی زبان تھی، لیکن پھر بھی انہوں نے عوامی زبان یعنی پنجابی میں اظہارِ خیال کا فیصلہ کیا۔

انہوں نے ان لوگوں کے تجربات، ان کی سرزمین، ان کی ثقافت اور ان کے مسائل پر بات کی، اور بدلے میں ان کے کلام کو لافانیت عطا ہوئی: یہ وہ عظیم کامیابی ہے جو ہر مصنف حاصل کرنے کی آرزو رکھتا ہے۔

یہ سوچ مجھے ڈرا دیتی ہے — بہت سے لوگ اس لیے مصنف بنتے ہیں کیونکہ وہ دنیا پر ایک انمٹ نشان چھوڑ کر جانا چاہتے ہیں، تاکہ ان کا کام لازوال ہو جائے۔ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا انگریزی میں لکھنے والے پاکستانی مصنفین کبھی ایسا مقام حاصل کر پائیں گے؟

انگریزی میں لکھنے والے ہم مصنفین اس وقت مقامی مصنفین سے شاید زیادہ ''کامیاب'' ہوں، لیکن جب ہم اس دنیا میں نہیں رہیں گے، اس وقت کیا ہمارے کام کو یہاں کوئی یاد رکھے گا؟

کیا واقعی ہماری تحریریں ہمارے لوگوں کی نمائندگی کرتی ہیں؛ کیا ہم نے ان کے ساتھ انصاف کیا؟

انگلش میں پڑھیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (5) بند ہیں

Akhtar Hafeez Apr 16, 2016 07:01pm
دنیا کا شاہکار ادب مقامی زبانوں میں موجود ہے۔ مگر آج کل ہمارے ہاں مادری زبانوں کے حوالے سے ایک احساس کمتری جنم لے چکا ہے۔ جب کہ کسی بھی ادب کو ترجمہ کرکے دنیا تک پہنچانا مشکل کام نہیں ہے مگر پہلی ترجیح یہی ہونی چاہیے کہ ہم مادری زبانوں میں ہی لکھیں۔
Morad Ali Janjua Apr 16, 2016 10:49pm
Repsected Haroon khalid Sahib, i agreed with your comments but as u mentioned name of renowned poet Qurat-ul-Ain so you also can creat your own identity in poetry. God bless you and your family.
ahmaq Apr 17, 2016 12:02am
This can be done by a person who has thorough understanding of both languages only. Simple translations are not enough most of the times. I can say it because I know it and is doing it. but mind you I am not a professional translator.
Riaz Baloch Apr 17, 2016 11:00pm
میں آپ کے خیالات سے بلکل متفق ہوں کسی معاشرے کی ثقافت و سماجی اقدار کو سمجہے بغیر ہم وہاں کے ادب کو سمجہ نہیں سکتے۔ عوام کے دلوں میں زندہ رہنے اور اُن کو اپنی بات سمجہانے کے لئے یہ ضروری ہے کہ اُنکی ئی زبان سے اُن سے مخاطب ہوا جائے۔ آپ کی تحریر مجہے بہت پسند آئی اُمید ہے کہ آپ آئیندہ بہی پنجابی زبان و ادب کے بارے میں ہماری معلومات میں اضافہ کرتے ہرہیگے۔
zafar Apr 21, 2016 10:42pm
Agar ma koi kitab ( book ) ya tahreer ( paragraph ) parhta hoon to agar main us zaban ka mohawrat ko ( ideam / phrases ) nahi janta to phir ma us sentence ko nahi samjh sakoon ga . is liya english ma likhi hoi koi bhi kitab indo pak main itni popoular nahi ho pati jitni urud ya maqami zaban ki kitab. ( wasa mujha to anthropology ka meaning bhi nahi pata tha abhi dictionary sa meaning malom kiya hain )