ٹوٹی پھوٹی، اکھڑی اور تجاوزات کی آماجگاہ بنی سڑکوں، گدلے پانی کے تالابوں میں ڈوبے، اور اجاڑ و تباہ حال شہروں والے میرے سندھ میں ترقی یا تو اخباری اشتہاروں میں نظر آتی ہے یا حکمرانوں کی آنکھوں سے دیکھی جا سکتی ہے، لیکن حکمرانوں کے جوتے میں عام آدمی کا پاؤں ہی نہیں پڑ سکتا، ان کی نظر سے دیکھنا تو دور کی بات ہے۔ پھر بھی حاکمِ سندھ فرماتے ہیں کہ جس کو صوبے کی ترقی نظر نہیں آتی وہ آنکھوں کا علاج کروائے۔

سندھ کی سرحد کہاں سے شروع ہوتی ہے؟ اگر آپ ملک کے کسی بھی حصے سے سڑک کے راستے سندھ میں داخل ہوں گے، تو سندھ وہاں سے شروع ہوجاتا ہے جہاں سے سیدھی سڑک پر چلتی آپ کی گاڑی اچانک دھڑدھڑ کر کے ہچکولے کھانا شروع کردے۔ پھر چاہے وہ داخلہ کوٹ سبزل سے ہو یا کشمور سے۔

سندھ کا انفراسٹرکچر جتنا تباہ و برباد ہے، اس سے زیادہ تباہی اس کے شعبہء تعلیم میں ہوئی ہے۔ صرف تعلیم ہی کیوں؟ شعبہء صحت کو بھی دیکھ لیجیے۔ لیبر، صنعت، زکوٰۃ سے لے کر خوراک کی وزارت میں جو تاریخیں رقم ہو رہی ہیں، وہ داستانیں لکھنے کے لیے کئی کتابیں چاہیئں۔ اسی طرح سندھ کی سڑکیں کیا، خدمات کا پورا ڈھانچہ و نظام گذشتہ نو سے دس سالوں میں زمیں دوز ہو چکا ہے۔

پڑھیے: سندھ پولیس میں جعلی بھرتیوں کی تحقیقات کا حکم

انگریز صحافی کرسٹینا لیمب نے پاکستان میں جمہوری جدوجہد پر اپنی کتاب ’ویٹنگ فار اللہ‘ میں جنرل ضیاء الحق کی آمریت کے بعد پہلی جمہوری حکومت میں سرکاری ملازمتوں کے حصول کے طریقہء کار پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ سرکاری ملازمت دینے کے لیے پارٹی کارکنان سے قید و بند اور کوڑے کھانے کے ثبوت مانگے جاتے تھے۔ پھر یہ بھی ہوا کہ ایسے جعلی سرٹیفکیٹس، بازوؤں پر جیل کے ٹھپے، اور کوڑے کھانے کی جھوٹی تصاویر بھی بلند قیمتوں پر فروخت ہونے لگیں۔

سچ تو یہ ہے کہ سندھ کا حال اب بھی وہی ہے۔ بس اتنی 'تبدیلی' آئی ہے کہ اب کوڑوں اور قید و بند کے سرٹیفکیٹ کی جگہ پارٹی قائدین سے وفاداری کے سرٹیفکیٹ کی ضرورت پڑتی ہے۔ اب کے سالوں میں بھی میرٹ کا پیمانہ حکمران پارٹی کے کسی وزیر، مشیر، اسمبلی ممبر کا بیٹا، سالہ، بھتیجا، بھانجا یا اور کوئی قریبی عزیز ہونا ہی ہے۔

میرٹ کی دوسری پیمائش پارٹی کارکن ہونے کے ساتھ کسی وڈیرے یا سردار کا چہیتا ہونا ضروری ہے۔ اگر آپ کسی وزیر مشیر کے خاص بندے ہیں تو اچھی ملازمت کی امید رکھ سکتے ہیں۔ اگر آپ کسی خاص بندے کے بندے ہیں، تو بھی آپ کو چھوٹی موٹی نوکری مل سکتی ہے لیکن اس میں اوپر والی کمائی کی امید اتنی نہیں رکھی جا سکتی۔

میرٹ کو پاؤں تلے روندنے کی ان گنت مثالوں کی وجہ سے نوجوانوں میں مایوسی تو اپنی جگہ، لیکن تھوڑی بہت تعلیم اور رسائی رکھنے والے نوجوانوں میں ایک خاص قسم کی نفسیات نے جنم لیا ہے کہ ’’نوکری ہو تو جیب گرم کرنے والی ہو، اگر وہ نہیں ملتی تو کم از کم ایسی ہو کہ تنخواہ اور مراعاتیں زیادہ ہوں اور دفتر بھی نہ جانا پڑے۔‘‘

جب حکمران طبقہ صوبے کی سرکاری ملازمتوں کو صرف اپنا حق تسلیم کر لے اور میرٹ کا جنازہ نکالنے کے لیے صوبائی پبلک سروس کمیشن کو بھی گھر کی باندی سمجھ لے، تو پڑھا لکھا نوجوان اپنا کرب اور درد لے کر کس دروازے پر صدا دے؟

مزید پڑھیے: ساری امیدیں 'سی ایس ایس' سے ہی کیوں؟

کبھی گریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ نوجوان سے سندھ میں میرٹ کے نکلتے جنازوں پربات تو کر کے دیکھیں، کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ اور تو اور کوئی جا کر سندھ پبلک سروس کمیشن کے استعفیٰ دینے والے سربراہ آغا رفیق سے تو پتا کرے کہ آخر ماجرا کیا تھا؟ استعفے کا سبب ہی پوچھ لیں تو ساری کہانی سمجھ میں آ جائے گی۔ ان کے استعفیٰ کے بعد پبلک سروس کمیشن کے ظاہر کیے گئے حالیہ نتائج کو بھی دیکھ لیں، تو باقی قصہ سمجھنے میں بھی آسانی رہے گی۔

سندھ پبلک سروس کمیشن کے بارے میں اس طرح کے کئی قصے ہیں۔ من پسند فہرستوں کی بنیاد پر سفارشات مرتب کرنے کی ہدایات نہ ماننے پر کمیشن کے کئی سربراہوں کو چلتا کیا گیا۔ جو نہیں گئے، ان کے خلاف انکوائریاں ابھی تک چل رہی ہیں۔

کمیشن کے حالیہ نتائج پر جو کچھ لکھا جا رہا ہے، وہ بھی عبرت حاصل کرنے کے لیے کافی ہے۔ 19 مارچ 2016 میں کاوش اخبار میں سندھ پبلک سروس کمیشن کے امتحانات کے نتائج کے بارے میں یہ خبر بڑی سرخیوں میں لگی ہے کہ کمیشن کے اپنے سیکرٹری، دو میمبران، ڈپٹی کنٹرولر، اور ڈیٹا پراسیسنگ افسر کے بیٹے، بیٹیاں، بھتیجے، بھانجے اور عزیز و اقارب کی ایک بڑی فہرست اسسٹنٹ کمشنر اور مختیارکار کے امتحان میں کامیاب قرار دی گئی ہے۔

ابھی ایک ہفتے پہلے کی بات ہے کہ سندھ پولیس کے ایک افسر فیصل بشیر میمن 1994 میں ڈی ایس پیز کی غیر قانونی بھرتیوں کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست لے کر آئے ہیں، جس میں ان کی وکیل عاصمہ جہانگیر ہیں۔ اس درخواست میں انہوں نے سندھ پبلک سروس کمیشن کا کچا چٹھا کھول کر رکھ دیا ہے۔ ان کا الزام ہے کہ امیدواران کے لیے پرچے ذمہ دار ہاؤس سے آئے تھے اور پھر حل شدہ پرچے بھی اسی ہاؤس لے جائے گئے۔

یہ ایک مقدمہ نہیں۔ سپریم کورٹ میں سندھ کے سروسز اسٹرکچر، غیر قانونی تقرریوں اور ترقیوں کے حوالے سے درجنوں مقدمات کئی سالوں سے چل رہے ہیں۔ ان مقدمات میں سپریم کورٹ کے یہ ملاحظات بھی ریکارڈ پر ہیں کہ ’’سندھ حکومت کارپینٹرز کو اے سی، ڈی سی لگا دیتی ہے، اب چپڑاسی رہ جاتے ہیں، ان کو بھی کمشنر لگا دیں۔‘‘

جانیے: تمام غیر قانونی تقرریاں منسوخ کی جائیں: ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل

یہ ثابت شدہ بات ہے کہ سندھ حکومت نے ایجوکیشن سپروائزر، کمپیوٹر پراسیسنگ افسران کو پہلے اسسٹنٹ کمشنر بنایا پھر وہ ڈپٹی کمشنر بن گئے۔ وہ کمشنر بننے والے تھے کہ معاملہ سپریم کورٹ میں آ گیا۔

حالت یہ ہے کہ عدالتی احکامات کو اب بھی کوئی ماننے کو تیار نہیں۔ سپریم کورٹ بار بار شولڈر پروموشن، انضمام، کانٹریکٹ اور ڈپیوٹیشن ختم کرنے کا حکم صادر کرتی ہے لیکن اس پر عمل کے بجائے ٹال مٹول کے نئے نئے طریقے آزما کر عدالت میں 'سب اچھا ہے' کی رپورٹ پیش کی جاتی ہے۔

کمیشن کے علاوہ جو ڈپارٹمینٹل بھرتیاں ہوتی رہتی ہیں، ان کے قصے کہانیاں ہی الگ ہیں۔ اس وقت بھی سندھ کے کئی حاضر و سابق وزراء اور سابق آئی جی پر پیسے لے کر یا غیر قانونی طریقہء کار سے سرکاری ملازمتیں دینے پر انکوائریاں جاری ہیں۔

یہ ’گڈ گورننس‘ کی شاندار مثالیں ہیں جن کی گونج سالوں تک سنی جائے گی۔ جہاں اقرباء پروری اپنے ڈیرے ڈال چکی ہو، حکمران اشرافیہ عوام پر خاص بندوں کو فوقیت دینے کے لیے اختیارات کا ناجائز استعمال اپنا حق سمجھتی ہو، جہاں من چاہوں اور من پسندوں کو نوازا جاتا رہا ہو وہاں کسی مزدور، کسان، کلرک یا چھوٹے موٹے کاروباری شخص کا بیٹا جج بن جائے تو وہ ایک غنیمت ہے۔

سندھ میں 149 خالی آسامیوں پر سول جج اور جوڈیشل مجسٹریٹ بھرتی کرنے کے نتائج سامنے آئے ہیں۔ سول ججز کے اس امتحان میں چار ایسے امیدوار بھی کامیاب ہوئے ہیں جو مزدور، کاشتکار اور معمولی کاروبار کرنے والے والدین کے بچے ہیں۔ سندھ کی نوجوان نسل میں ان نتائج سے ایک امید پیدا ہوئی ہے۔

لاڑکانہ کا سلیم ناصر اس مزدور کا بیٹا ہے جو 40 سالوں سے سول کورٹ کے سامنے چائے بیچتا ہے۔ اس کے والد کا کہنا ہے کہ جس کورٹ کے سامنے چائے بیچتا ہوں اس کورٹ میں میرا بیٹا جج لگ گیا ہے، یہ سوچ کر خوشی سے آنکھیں بھر آتی ہیں۔ سلیم ناصر کا باپ تو مزدور ہے لیکن اس کا بڑا بھائی بھی پکوڑے بیچ کر گھر کا خرچہ چلاتا ہے۔

ایک اور سول جج عبدالصمد نون ہیں جن کے والد پالتو جانوروں کی خرید و فروخت کے چھوٹے موٹے کاروبار سے گھر کا خرچہ نکالتے ہیں۔ نثار شر کے والد کاشتکار ہیں اور ایک کلرک کا بیٹا سول جج بنا ہے۔

لیکن اس میں حکومت وقت کا کوئی کمال اس لیے نہیں کہ ان تقرریوں کی ذمہ دار سندھ ہائی کورٹ ہے، اس لیے ان امتحانات کے نتائج پر بے پہنچ امیدواران خوش ہو رہے ہیں۔ یہ نتائج میرٹ پر اس لیے بھی کہے جاتے ہیں کہ اس میں حکومت کا کوئی کردار نہیں۔

سندھ حکومت نے سال 2011 میں عدالتوں سے یہ ذمہ داری چھیننے کی کوشش کرنے کے لیے سندھ ہائی کورٹ میں ایک درخواست دائر کی جس پر سندھ ہائی کورٹ نے فیصلہ دیا کہ یہ اختیارات عدلیہ کے ہیں اور اس کے پاس رہیں گے۔ اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے بھی اپیل خارج ہو گئی۔ عدالتِ عظمیٰ کا یہ فیصلہ ای ایس ایم آر 2011 میں رپورٹ کیا ہوا ہے۔

اس بات پر شکر ادا کرنا چاہیے کہ عدلیہ میں تقرریوں کا اختیار حکومت کے پاس نہیں، ورنہ فرض کر لیا جائے کہ اگر ایسا ہوتا، تو منصفوں کی مسندوں پر بھی وڈیروں اور سرداروں کے رشتے داروں کا اسی طرح قبضہ ہوتا جس طرح اس وقت تمام بڑے عوامی عہدوں پر ہے۔

تبصرے (5) بند ہیں

Lachhman das Apr 25, 2016 04:10pm
I agree with every word of this article. Dear how to come out of this situation?
عدنان جداکر Apr 25, 2016 06:10pm
@Lachhman das There are three solution to get out of this situation. 1) Merit 2) Merit & 3) Merit Quota system and recommendations ruined Sindh 4 generations.
Khan Apr 25, 2016 08:42pm
السلام علیکم بات بلکل درست ہے، سندھ وہاں سے شروع ہوجاتا ہے جہاں سے سیدھی سڑک پر چلتی آپ کی گاڑی اچانک دھڑدھڑ کر کے ہچکولے کھانا شروع کردے، پہلے سندھی افسر بھی میرٹ پر آتے تھے مگر آج کل آنے والوں نے ہمارے اس خوبصورت صوبے کا حلیہ ہی بگاڑ کر رکھ دیا ہے، سندھ ترقی کریگا تو یہاں رہنے والوں سمیت سب کی ترقی ہوگی پتہ نہیں یہ بات حکمرانوں کو کیوں سمجھ نہیں آرہی، دفن یہاں ہونا ہے تو اس صوبے کی ترقی کا بھی سوچو، محبت کرو اس پیاری دھرتی سے، پیٹ صرف 2روٹیوں سے بھر جاتا ہے اور زمین صرف 2 گز ہی چاہیے ہوتی ہے، خیرخواہ
Nabi bux Apr 25, 2016 11:04pm
Dear agreed with your arguments , beside ruling I think there are other many reasons too behind this . But the problem here is how to get rid from those culprits.
Ak Apr 25, 2016 11:54pm
Blog is limited to sindh only. . . hence title should be "sindh main sarkari mulazmat Kay liye lazim certificate".