دہشت کا جہنّم
کوئٹہ میں 15 جون کو جان لیوا بم دھماکوں میں ہلاک ہونے والی خواتین، یونیورسٹی کی 12 طالبات ، خبروں میں سے غائب ہو گئی ہیں- اس حقیقت پر پردہ پڑ گیا کہ بہت سی زخمیوں کی زندگیاں اس حادثے کے بعد سے ہمیشہ کے لئے بدل جائیں گی-
ان میں سے بہت سی مظلوم اپنے خاندانوں میں پہلی لڑکیاں تھی جو یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کر رہی تھیں- انہی میں سے ایک زارا احمد، جو صدر بہادر خان وومن یونیورسٹی میں اسلامک اسٹڈیز، ماسٹرز کی طالبہ تھی، بم دھماکے کے بعد سے لاپتہ ہے- اس کے بوڑھے ماں باپ شہر کے پبلک اور پرائیویٹ ہسپتالوں میں اپنی بیٹی کی تلاش کر رہے ہیں- اس کے والد زینت احمد، نے ڈان کو بتایا " ہم ایک ہفتے سے اسکی تلاش کر رہے ہیں، لیکن ابھی تک ہمیں کوئی سراغ نہیں ملا"- اس کی والدہ ابھی تک صدمے میں ہےاور کسی سے کچھ بول نہیں پا رہیں-
اور جو اس کٹھن آزمائش میں بچ گئی ہیں انہیں سنگین زخموں کا سامنا کرنا ہے، جو اس طاقتور خود کش بم دھماکے کا نتیجہ ہیں جس نے طالبات سے بھری بس کو پگھلے ہوے ڈھیر میں تبدیل کر دیا-
یاسمین بلوچ بھی انہی بچ جانے والوں میں سے ہے- اپنے شدید زخموں کے باوجود اس نے میڈیا کے نمائندوں سے بات کی- "میں دوسری بس میں تھی جب میں نے دھماکے کی آواز سنی- ہر طرف اندھیرا چھا گیا، میں جس چیز کو ہاتھ لگاتی وہ پگھلتی جا رہی تھی"- اس نے کہا-
ٹوٹی ہوئی ٹانگ اور چہرے پر جگہ جگہ گہرے زخموں کے باوجود، ہسپتال کے بسٹر پر پڑی یاسمین نے اس بات پر زور دیا کہ" اس طرح کے واقعات مجھے تعلیم حاصل کرنے سے کبھی نہیں روک سکتے- جیسے ہی میں صحتیاب ہونگی، یونیورسٹی جانا شروع کر دوں گی"-
دوسرے یاسمین کی طرح پر سکون اور پر عزم نہیں ہیں- ایس بی کے یونیورسٹی کی زیادہ تر لڑکیاں اس جان لیوا دھماکے کے بعد نفسیاتی ٹروما سے گزر رہی ہیں-
"فی الحال بچ جانے والی لڑکیاں اکیوٹ سٹریس ری ایکشن (اے ایس آر) سے گزر رہی ہیں"- ایک جانے مانے مقامی ماہر نفسیات ڈاکٹر غلام رسول نے ڈان.کوم کو بتایا- انہوں نے کہا کہ آٹھ سے نو، ایس بی کے یونیورسٹی کی طالبات بم دھماکے کے نتیجے میں ان کے کلینک علاج کے لئے آئ ہیں-
انہوں نے کہا کہ اے ایس آر کے بعد، مریض پوسٹ ٹرامیٹک سٹریس ڈس آرڈر (پی ٹی ایس ڈی) کا شکار ہو جاتا ہے- اگر انکا وقت کے ساتھ ساتھ مناسب علاج نہ کیا جاۓ تو آگے جا کر ڈپریشن یا پھر مستقل انتشار کا سبب بن جاتا ہے-
ڈاکٹر رسول کے مطابق، ان لڑکیوں کو اپنی ظاہری حالت میں تبدیلی کو قبول کرنے میں بھی دشواری کا سامنا ہے- ان لڑکیوں کے خاندانوں اور یونیورسٹی انتظامیہ سے اس بات کی گزارش کر رہے ہیں کہ ان لڑکیوں کو مشغول رکھیں اور یادگاری تقریبات کا اہتمام کریں تا کہ وہ اس صدمے کو برداشت کر پائیں-
پانچ اور طالبات کمبائن ملٹری ہسپتال (سی ایم ایچ) میں یاسمین کے وارڈ میں داخل کیا گیا تھا، ابھی تک صدمے سے دوچار ہیں اور کوئی بھی بات کرنے سے گریزاں ہے- "میری بہن ابھی تک دماغی ٹروما سے گزر رہی ہے"، زخمیوں میں سے ایک کی بہن، کنیز فاطمہ نے ڈان.کوم کو بتایا- فاطمہ نے بتایا کہ اسکی دو بہنوں کو سی ایم ایچ میں داخل کیا گیا ہے اور دونوں صدمے سے دوچار ہیں-
تعلیم و صحت دونوں ہی کا نقصان ہوا ہے-
فقط اس حملے کے زخمی ہی اس ازیت سے نہیں گزرے- بلوچستان کا سب سے بڑا سرکاری ہسپتال، بولان میڈیکل کمپلیکس(بی ایم سی) بھی لگاتار دس دن ، پیر تک، بند رہا-
حکام نے 15 جون کے دشتگرد حملے کے بعد ہسپتال بند کر دیا تھا- اس حملے میں دہشتگردوں نے سینکڑوں مریضوں، معالجوں اور نرسوں کو یرغمال بنا لیا تھا، جب کہ سیکورٹی فورسز ان سے نبرد آزما تھی- بی ایم سی کے مریض، سول ہسپتال اور دوسرے نجی ہسپتالوں میں منتقل کر دیے گۓ تھے-
اسی دوران ایس بی کے یونیورسٹی بھی دہشتگرد حملے کے بعد غیر معینہ مدت کے لئے بند کر دی گئی-
ایک سخت پردہ دار معاشرے میں، کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے خاندان کے لئے اپنی بیٹیوں کو یونیورسٹی بھیجنے کا فیصلہ کوئی معمولی بات نہیں ہے- "یہ یونیورسٹی پورے ملک میں اچھے معیار تعلیم کی وجہ سے پہلے نمبر پر ہے"- یونیورسٹی کی وائس چانسلر، سلطانہ بلوچ نے ڈان.کوم کو بتایا- انہوں نے کہا کہ انتظامیہ کی مسلسل کوششوں کی وجہ سے یونیورسٹی ترقی کی راہ پر گامزن تھی- "اب سب کچھ الٹ ہو گیا ہے"- انہوں نے کہا-
دوہرے خود کش حملے کے بعد، جس میں چار دشتگردوں سمیت دو درجن سے زائد افراد مارے گۓ، یونیورسٹی اور ہسپتال دونو کے باہر، پیرا ملٹری ٹروپس اور پولیس اہلکار تعینات کر دے گۓ ہیں-
ایک انٹیلی جنس اہلکار، جنہوں نے اپنا نام ظاہر کرنے سے منع کیا ہے، نے بتایا کہ بس پر ہونے والے پہلے خود کش حملے میں ایک عورت ذمہ دار تھی- اس کے بعد بی ایم سی پر حملہ ہوا، جہاں زخمیوں کو فوری طبّی امداد کے لئے لے جایا گیا تھا-
ترجمہ: ناہید اسرار













لائیو ٹی وی