شاہلیلہ اب میدان میں نہیں ہوں گی

اپ ڈیٹ 15 اکتوبر 2016
شاہلیلہ پاکستان ویمن فٹ بال ٹیم کی نوجوان اسٹرائیکر تھیں—فوٹو:شاہلیلہ بلوچ فیس بک
شاہلیلہ پاکستان ویمن فٹ بال ٹیم کی نوجوان اسٹرائیکر تھیں—فوٹو:شاہلیلہ بلوچ فیس بک

شاہلیلا بلوچ کی کراچی میں کارحادثے میں اچانک موت سے نہ صرف پاکستان فٹ بال بلکہ پاکستانی معاشرے میں بھی ایک وسیع خلا پیدا ہوا ہے۔

اسٹرائیکر کی فٹ بال کے میدان میں کاوشوں سے بڑھ کر انھوں نے اپنی مرضی کی زندگی گزارنے کے لیے معاشرتی رکاؤٹوں کو توڑتے ہوئے مزید کئی خواتین کو اس خوبصورت کھیل میں شمولیت کے لیے متاثر کیا تھا۔

ڈان کو 2014 میں دیے گئے ایک انٹرویو کے دوران جب شاہلیلا سے پوچھا گیا کہ اگر آپ کو زندگی میں کچھ مختلف کرنا ہوتو کیا کریں گی جس پر انھوں نے کہا تھا کہ 'صرف فٹ بال ایسی چیز ہے جس کو میں کھیلنا چاہتی ہوں'۔

'میں سب سے بڑھ کر پروفیشنل فٹ بال کھلاڑی بننا چاہتی ہوں'۔

وہ اپنی بڑی بہنوں راحیلہ اور سہیلا کا حوالہ دیتے ہوئے کہہ رہی تھیں جنھوں نے بعد میں زندگی میں کچھ اور کرنے کے لیے فٹ بال کھیلی۔ راحیلہ نے منیجمنٹ میں ڈگری حاصل کرنے کے بعد فٹ بال کے انتظامی معاملات میں جت گئیں جبکہ سہیلا نے میڈیسن پڑھنا شروع کیا۔

فوٹو بلوچستان یونائیٹڈ ویمنز فٹ بال کلب فیس بک
فوٹو بلوچستان یونائیٹڈ ویمنز فٹ بال کلب فیس بک

شاہلیلا صرف کھیلنا چاہتی تھیں، وہ میدان میں ایک تخلیق کار تھیں اور بغیر کسی بحث کے اپنی بہنوں میں سب سے زیاہ باصلاحیت تھیں۔

دوسال قبل دیے گئے انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ 'جس طرح میں اپنے آپ کو میدان میں منوا سکتی ہوں اس پر مجھے خوشی ہے اور فٹ بال مجھے ایسا کرنے کی آزادی دیتی ہے'۔

ان کےکوچ طارق لطفی ارجنٹینا کے عطیم میراڈونا کی نسبت سے انھیں 'چھوٹا میراڈونا' کہتے تھے۔

اور پنٹ-سائزڈ ڈائنامو کی عرفیت سے مشہور اسٹرائیکر بلوچستان یونائیٹڈ کے لیے گول کرنے والی کھلاڑی تھیں۔

مزید پڑھیں: ویمن فٹبال ٹیم کی اسٹرائیکر شاہ لائلہ بلوچ کار حادثے میں ہلاک

وہ کم عمرترین کھلاڑی تھیں، صرف 9 سال کی عمر میں 2005 میں منعقدہ ویمنز فٹ بال چمپیئن شپ کے افتتاحی مقابلوں میں شریک ہوئی تھیں۔

پاکستان فٹ بال فیڈریشن ( پی ایف ایف خواتین) کی چیئرپرسن، بلوچستان یونائیٹڈ کی بانی اوران کی والدہ روبینہ عرفان نے 2014 میں ڈان کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ 'مجھے انھیں سہیلا اور راحیلہ کے ساتھ رکھنا پڑتا تھا کیونکہ وہ سمجھدار تھی'۔

'میں انھیں ٹیم میں دیگر والدین کو متاثر کرنے کے لیے رکھتی تھی تاکہ وہ آگے جاکر اپنی بیٹیوں کو فٹ بال کھیلنے کی اجازت دیں'۔

راحیلہ نے پانچ سال قبل پاکستان ویمنز ٹیم کی جانب سے 2010 میں ساؤتھ ایشین فیڈریشن گیمز ویمنز چمپیئن شپ میں بین الاقوامی فٹ بال میں ڈیبیو کیا تھا۔

ان کی والدہ کو ملک کی ویمنز فٹ بال کی سربراہ کی حیثیت سے شاہلیلا کے حوالے سے اقربا پروری کے کئی الزامات کا سامنا تھا۔

2014 میں اسلام آباد میں سیف ویمنز چمیئن شپ کے گروپ مرحلے میں پاکستان کے مسلسل دوسری دفعہ باہر ہونے کے بعد ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا تھا کہ 'میرے خیال میں تنقید کا نشانہ میں تھی کیونکہ میری ماں پی ایف ایف (خواتین) کی سربراہ ہیں'۔

شاہلیلا احمد زئی بلوچ نے 9 سال کی عمر میں فٹ بال کھیلنا شروع کیا، فوٹو فیس بک
شاہلیلا احمد زئی بلوچ نے 9 سال کی عمر میں فٹ بال کھیلنا شروع کیا، فوٹو فیس بک

لیکن وہ بہترین کارکردگی کے لیے پرعزم تھیں، اور جہاں تک کوچ کی بات ہے تو انھوں نے پاکستان کے لیے بہترین خاتون کھلاڑی تراش کر دی تھی۔

شاہلیلا کی موت کے چند گھنٹوں بعد ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے لطفی کا کہنا تھا کہ 'اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ بہترین تھیں'۔

مالدیپ کے سن ہوٹل اور ریزورٹ ایف سی سے گزشتہ سال معاہدہ کرنے والے اسٹرائیکرحاجرہ خان ان کی ساتھی کھلاڑی تھی اور ان کے لیے مشعل راہ کھلاڑیوں میں سے ایک تھیں۔

ان کی بڑی آرزو قومی ٹیم کے لیے ایک ٹائٹل حاصل کرنا تھا، 2014 میں اپنی مٹی میں سیف چمپیئن شپ کا ایک موقع تھا جو کارآمد نہیں ہوا۔ لیکن شاہلیلا واقعی طورپر پرامید تھیں کہ انھیں کئی مواقع ملیں گے۔

فٹ بال شاہلیلا کی زندگی تھی اور اپنی 20 سالہ زندگی کے نصف سے زیادہ عرصہ اس کے ساتھ گزارا۔

شاہلیلا کو دوسرا موقع نہیں ملے گا لیکن انھوں نے دوسرے کئی لوگوں کو موقع حاصل کرنے اور فٹ بال کھیلنے کا راستہ دکھایا ہے۔

یہ ان کی میراث ہوگی۔

تبصرے (0) بند ہیں