کراچی کے علاقے لانڈھی میں دو ٹرینوں میں تصادم کے نتیجے میں 22 افراد ہلاک اور 60 سے زائد زخمی ہوگئے۔

ڈویژنل سپرینٹنڈنٹ ریلوے ناصر نذیر نے ڈان نیوز کو بتایا کہ لانڈھی ریلوے اسٹیشن اور جمعہ گوٹھ کے درمیان کھڑی فرید ایکسپریس کو زکریا ایکسپریس نے پیچھے سے ٹکر ماری۔

انہوں نے مزید بتایا کہ دونوں ٹرینوں میں تقریباً ایک ہزار کے قریب مسافر موجود تھے۔

ٹرینوں کے تصادم کے نتیجے میں متعدد بوگیاں پٹری سے اتر گئیں— فوٹو / اے ایف پی
ٹرینوں کے تصادم کے نتیجے میں متعدد بوگیاں پٹری سے اتر گئیں— فوٹو / اے ایف پی

جناح ہسپتال کی شعبہ حادثات کی سربراہ ڈاکٹر سیمی جمالی نے تصدیق کی کہ جناح ہسپتال میں 11 افراد کی لاشیں پہنچائی گئیں۔

یہ بھی پڑھیں: ملتان: مسافر ٹرین کی مال گاڑی سے ٹکر،4 افراد ہلاک

تاہم جناح ہسپتال کے انتظامی عہدے داروں نے بتایا کہ اب تک 18 افراد سے زائد افراد کی لاشیں ہسپتال کے مردہ خانے میں لائی جاچکی ہیں جبکہ زخمیوں کی حتمی تعداد کے بارے میں فی الحال کچھ نہیں بتایا جاسکتا کیوں کہ امدادی سرگرمیاں جاری ہیں۔

لانڈھی ریلوے اسٹیشن کے قریب فرید اور زکریا ایکسپریس کے درمیان ہوا تصادم جس کے نتیجے میں کئی بوگیاں پٹری سے اتر گئیں اور کئی مکمل طور پر تباہ ہوگئیں۔

یہ بھی پڑھیں: بولان ٹرین حادثہ : ہلاکتوں کی تعداد 19ہو گئی

ڈرائیورز نے سنگلز نظر انداز کیے

وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے بتایا کہ جس ٹرین نے ٹکر ماری اس کے ڈرائیور اور اسسٹنٹ ڈرائیور نے سنگلنز کو نظر انداز کی جس کی وجہ سے بظاہر حادثہ رونما ہوا اور 19 قیمتی جانیں ضائع ہوئیں۔

انہوں نے بتایا کہ پیچھے سے آنے والی ٹرین کو پہلے زرد (یلو) سگنل ملا جس کا مطلب ہے کہ رفتار کم کرلیں اور پھر سرخ سنگل دیا گیا جس کا مطلب ہوتا ہے کہ ایک منٹ کے لیے ٹرین کو مکمل طور پر روک لیں اور انتہائی آہستہ سے آگے بڑھیں کیوں کہ آگے کوئی خطرہ ہوسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ڈرائیورز اور اسسٹنٹ ڈرائیورز نے دونوں سگنلز کو نظر انداز کردیا، غیر ذمہ دار اہلکاروں کی غفلت کی وجہ سے ریلوے کو بہتر بنانے کے لیے کیے جانے والے اقدامات کو نقصان پہنچتا ہے اور ساکھ متاثر ہوتی ہے۔

مزید پڑھیں: گوجرانوالہ میں ٹرین حادثہ، ہلاکتوں کی تعداد 19 ہو گئی

ان کا کہنا تھا کہ ڈرائیور اور اسسٹنٹ ڈرائیور لاپتہ ہیں جنہیں تلاش کیا جارہا ہے وہ بچ کر نہیں نکل سکتے۔

خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ آئندہ 72 گھنٹوں میں ابتدائی تحقیقات جمع کرانے کی ہدایت کردی گی ہے جبکہ تفصیلی رپورٹ آنے میں 8 دن لگ سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اب تک کی معلومات کے مطابق ہمارا سگنلنگ سسٹم درست کام کررہا تھا لہٰذا ممکن ہے کہ یہ حادثہ انسانی غفلت کی وجہ سے پیش آیا۔

امدادی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے لیے بھاری مشینری استعمال کی گئی— فوٹو / اے ایف پی
امدادی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے لیے بھاری مشینری استعمال کی گئی— فوٹو / اے ایف پی

وفاقی وزیر ریلوے نے حادثے میں جاں بحق ہونے والے کے لواحقین کے لیے 15 لاکھ جبکہ زخمیوں کو ساڑھے تین لاکھ روپے مالی امداد دینے کا بھی اعلان کیا۔

قبل ازیں وزیر اعلیٰ سندھ کے مشیر برائے لیبر سینیٹر سیعد ٖغنی نے بتایا کہ ’ریلوے حکام نے پیچھے سے آنے والی ٹرین کو غلطی سے گرین سگنل دے دیا اور اس نے پہلے سے کھڑی ہوئی ٹرین کو پیچھے سے ٹکر ماردی‘۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق ابتدائی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی کہ دونوں ٹرینیں پنجاب سے کراچی آرہی تھیں جبکہ زکریا ایکسپریس نے فرید ایکسپریس کو پیچھے سے ٹکر ماری۔

حادثے کے بعد کراچی میں ٹرینوں کی آمد و رفت مکمل طور پر معطل ہوگئی جبکہ وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئیٹر پر اپنے پیغام میں کہا کہ وہ ڈی ایس ریلوے سے مکمل رابطے میں ہیں جو اس ہنگامی صورتحال کی نگرانی کررہے ہیں۔

خواجہ سعد رفیق نے یہ بھی کہا کہ اس حادثے کی آزادنہ تحقیقات کی کرائی جائیں گی۔

ریسکیو آپریشن

شہر میں حکومتی سطح پر ریسکیو کا موثر انتظام نہ ہونے کی وجہ سے زخمیوں کو ٹرین کی بوگیوں سے نکالنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جبکہ متعدد زخمیوں کو لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت جناح ہسپتال منتقل کیا۔

ریسکیو کا موثر انتظام نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت زخمیوں کو ہسپتال منتقل کیا— فوٹو / ڈان نیوز
ریسکیو کا موثر انتظام نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت زخمیوں کو ہسپتال منتقل کیا— فوٹو / ڈان نیوز

صبح کے وقت دفتری اوقات کی وجہ سے ٹریفک بھی جام تھا اور ایمبولینس اور دیگر بھاری مشینری کو جائے حادثہ تک پہنچنے میں کافی وقت لگا۔

اس کے علاوہ فوج اور رینجرز کے جوانوں نے بھی زخمیوں کو ملبے سے نکالنے میں ریسکیو اہلکاروں کی معاونت کی۔

یہ بھی پڑھیں: بولان ٹرین حادثہ : ہلاکتوں کی تعداد 19ہو گئی

ٹرین کی سب سے زیادہ متاثر ہونے والی بوگیوں کو کاٹ کر زخمیوں اور لاشوں کو نکالا گیا جبکہ دوسرے ٹریک پر گرنے والے ملبے کو صاف کرکے اسے آمد و رفت کے لیے کھول دیا گیا جبکہ جس ٹریک پر حادثہ ہوا اسے بحال کرنے میں مزید وقت لگے گا۔

واضح رہے کہ اس سے قبل ستمبر کے مہینے میں ملتان میں بھی پشاور سے کراچی جانے والی عوام ایکسپریس اور مال گاڑی میں تصادم کے نتیجے میں 4 افراد ہلاک جبکہ 50 سے زائد زخمی ہو گئے تھے۔

نومبر 2015 میں بلوچستان کے ڈسٹرکٹ بولان میں ہونے والے ٹرین حادثے میں ہلاکتوں کی تعداد 19 ہو گئی تھی۔

کوئٹہ سے راولپنڈی جانے والی جعفر ایکسپریس کے بریک ضلع بولان میں آب گم کے مقام پر فیل ہو گئے تھے، جس کے نتیجے میں انجن سمیت متعدد بوگیاں پٹڑی سے اتر گئی تھیں۔

اسی طرح گزشتہ برس جولائی میں پنجاب کے ضلع گوجرانوالہ میں ہیڈ چھنانواں کے قریب پل ٹوٹنے کے نتیجے میں فوجی دستوں کو لے جانے والی خصوصی ٹرین کی 4 بوگیاں نہر میں گرنے سے متعدد فوجیوں سمیت 19 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔


ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں