حال ہی میں ایک نجی ٹی وی چینل پر ایک ڈرامہ دیکھنے کا اتفاق ہوا جس میں ایک آدمی اپنے سوتیلے بیٹے کی دوست میں دلچسپی لیتا ہے اور ڈرامے کے اختتام پر اس سے شادی کر لیتا ہے۔

اس ڈرامے کہ دیکھ کر طبیعت میں ایک ناگواری سی پیدا ہو گئی اور مجھے یوں محسوس ہوا کہ جیسے ہمارے ڈراموں میں سوتیلے رشتے کو کسی بھی طرح کے منفی کردار میں پیش کرنا بہت ہی عام سی بات ہو گئی ہے۔

خیر اس مخصوص ڈرامے کو تو ڈراموں کے موجودہ گرتے ہوئے معیار کی بنیاد پر نظر انداز کیا جاسکتا ہے مگر اس سے بھی پیشتر ڈرامہ سیریل اڈاری ہے جس میں سوتیلے والد کو انتہائی قبیح حرکتیں کرتے دکھایا گیا ہے۔

میں اس بات سے متفق ہوں کہ بچوں سے زیادتی کے موضوع پر آگہی پیدا کرنے کی ضرورت ہے لیکن ایسی پیش کش سے ایک منفی تاثر بھی پیدا ہوا، کیوں کہ اگر ایک طرح سے دیکھا جائے تو ڈرامہ سیریل اڈاری نے ہر کسی کے دل میں سوتیلے والد کے بارے میں بہت سے خدشات بھی پیدا کر دیے ہیں، خصوصاً وہ خواتین جو طلاق یا بیوگی کے بعد اپنی بیٹیوں کو اکیلے پال رہی تھیں ان پر اس ڈرامے کے اس قدر اثرات مرتب ہوئے کہ وہ دوسری شادی، جو کہ ویسے ہی ہمارے معاشرے کی خواتین کے لیے شجرِ ممنوعہ ہے، کے خیال سے بدظن ہو گئیں۔

اس کے ساتھ معاشرے کی نظر میں بھی سوتیلا والد ایک شیطانی رشتے کے طور پر سامنے آیا۔ سنڈریلا کی کہانی سے لے کر موجودہ دور کے ڈراموں میں سوتیلی ماں کو ہمیشہ ایک منفی کردار میں پیش کیا جاتا رہا ہے۔

جب کبھی بھی بدترین رویے کی مثال پیش کرنی ہو تو اسے سوتیلی ماں کے رویے سے تشبیہ دی جاتی ہے۔ ’سوتیلی‘ ڈرامہ دیکھنے کا بھی اتفاق ہوا، جس میں سوتیلی ماں ظلم و ستم کی ساری حدیں پار کرتی نظر آئی۔ ہاں البتہ میرے دیکھے ہوئے ڈراموں میں جیکسن ہائیٹس وہ واحد ڈرامہ تھا جس میں سوتیلی ماں کو ایک مثبت کردار میں پیش کیا گیا۔

موجودہ دور میں ہمارے معاشرے میں بہت سی تبدیلیاں اور روایات نمو پا رہی ہیں۔ معاشرے میں طلاق کا رجحان بہت بڑھ گیا ہے۔ اس اضافے کی وجہ کیا ہے، یہ ایک علیحدہ موضوع ہے، مگر اس تبدیلی کے بعد اگلے قدم کے طور پر بہت سے ایسے مخلوط خاندان وجود میں آرہے ہیں جن میں شادی شدہ جوڑے میں سے کوئی ایک یا دونوں فرد اپنے پچھلے شریکِ حیات سے ہونے والے بچوں کو اپنے ساتھ رکھتے ہیں۔

ان بدلتی ہوئی معاشرتی اقدار میں ہمیں سوتیلے والدین کے لیے ایک مناسب مقام متعین کرنے، اس مقام کو قبول کرنے اور ان کی رہنمائی کے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

سب سے پہلے تو ہمیں اس آگہی کی ضرورت ہے کہ اسلامی نقطہ نظر سے سوتیلی والدہ اور سوتیلا والد اپنی سوتیلی اولاد کے لیے محرم کا درجہ رکھتے ہیں اور سوتیلے والد کے لیے اپنی منکوحہ بیوی کی ایسی بیٹی کی جو اس کے پہلے شوہر سے پیدا ہوئی ہو، وہی حرمت ہے جو اس کی اپنی سگی ماں، سگی بہن یا سگی بیٹی کی ہوتی ہے۔

ہمارے معاشرے میں لوگوں کو جو مزید ایک بات سمجھنے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ شادی بذات خود کسی مجبوری کا رشتہ اور نتیجہ نہیں ہونی چاہیے۔ اب اس نکتے کو پیش نظر رکھتے ہوئے یہ سوچیے کہ جو مرد یا عورت باہمی رضامندی اور بنا کسی مجبوری کے کسی پہلے سے موجود اولاد والے شخص یا اولاد والی خاتون کو اپناتے ہیں، ان کا ظرف اور حوصلہ عام لوگوں سے بلند ہوتا ہے نہ کہ کم۔

جب ایک اچھا انسان اپنی ساری ذمہ داریوں کو خوش اسلوبی سے نبھا سکتا ہے تو وہ ایک اچھا سوتیلا رشتہ بھی بن سکتا ہے۔ اس کے لیے انسان میں ایک بنیادی اچھائی کی موجودگی ضروری ہے۔

دوسری طرف سوتیلے والدین کو بھی کچھ اصولوں اور ضابطوں کے تحت ایک نئے مخلوط خاندان کی ذمہ داریوں کو نبھانا چاہیے۔ سوتیلے رشتوں کو قریب لانے کے لیے دلوں میں وسعت، وقت، توجہ اور خلوص نیت بہت ضروری عناصر ہیں۔ سوتیلے والدین کو تحمل اور برداشت سے کام لیتے ہوئے اس بات کا علم ہونا چاہیے کہ دلوں میں محبت ایک دن میں نہیں پیدا کی جاسکتی۔ سوتیلے والدین کو آپس میں بات چیت کے ذریعے اصول وضع کرنے چاہیئں اور پھر ان اصولوں کے تحت سوتیلی اولاد سے تعلقات پیدا کرنے چاہیئں۔

میں ایک ایسی خاتون سے واقف ہوں جو اپنی سوتیلی بیٹی سے بے حد محبت کرتی ہیں مگر لوگ ان کی سوتیلی بیٹی کے خلاف ان سے بات کرنا نا صرف اپنا حق سمجھتے ہیں بلکہ ان کا خیال ہے کہ سوتیلی بیٹی کی برائی سن کر یہ والدہ خوش ہوجائیں گی جب کہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔

اسی طرح میں ایک ایسے سوتیلے والد سے بھی واقف ہوں جنہوں نے اپنی بیوی کے پہلے بیٹے کو انتہائی توجہ سے پروان چڑھایا ہے، اس دور میں ہمارے معاشرے کو اپنی فرسودہ سوچ کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ان رشتوں کو نئے معنی دینے کی ضرورت ہے۔

مجھے بعض اوقات یوں محسوس ہوتا ہے کہ ان سوتیلے رشتوں سے وابستہ صرف منفی رویوں کو سامنے لا کر ہم ان رشتوں کو کسی بھی قسم کی اچھائی کی کوشش کے تصور سے آزاد کر رہے ہیں۔

میرا خیال ہے کہ سوتیلے رشتوں کے مثبت کردار کو سامنے لانا چاہیے کیونکہ حقیقت میں بھی بہت سے ایسے سوتیلے والدین موجود ہیں جو مخلص اور محبت کرنے والے ہیں۔ اس کے علاوہ مثبت رویوں کو سامنے لانے سے اس رشتے میں بندھنے والے نئے سوتیلے والدین کو اپنے کردار کی تصحیح کا موقع ملے گا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (8) بند ہیں

saira ayub Nov 15, 2016 06:38pm
The writer approached a social problem very positively. we should change our thinking.we should study real structure and values of islam.
saira ayub Nov 15, 2016 06:48pm
The writer approached a social problem in positive way.
حسن اکبر Nov 15, 2016 08:52pm
بہت اچھا ہے ۔ لیکن میرے خیال میں صرف ڈرامے ہی واحد وجہ ہیں نہیں۔ سوتیلی ماں/ باپ کے بارے میں ہماری ثقافت میں مجموعی طور پر منفی جذبات موجود ہیں۔ اور اس کی جڑیں کافی گہری ہیں۔ ڈراموں میں جو چیزیں لوگ دیکھنا چاہتے ہیں۔ اور قبول کرسکتے ہیں۔ وہ ہی کردار پیش کیا جاتے ہیں۔ اگر حقیقی ماں/ باپ کا منفی رویہ پیش کیا جائے تو ناظرین کی جانب سے سخت ردعمل بھی آسکتا ہے ۔ جب کہ حقیقی کی جگہ سوتیلی کے استعمال سے وہی کردار عوام / ناظرین قبول کرلیتے ہیں۔
ARA Nov 15, 2016 10:07pm
Excellent!
حسن Nov 16, 2016 04:36am
سوتیلے کبھی خیر خواہ نہیں ہوسکتے یہی حقیقت ہے
Touqeer Nov 16, 2016 11:19am
Very well said.
kashif Nov 16, 2016 01:56pm
nicely explained and maintained
asif iqbal Nov 17, 2016 01:35pm
I am agreed with the writer also nowadays all most all of the Pakistan drams revolving 2nd marriage which I think very low % in Pakistan