اسلام آباد: ڈائریکٹ ٹو ہوم (ڈی ٹی ایچ) براڈ کاسٹ کے 3لائسنس 23 نومبر کو نیلام ہونے سے پاکستان کے لیے 150 ملین ڈالر (تقریباََ 15 ارب 72 کروڑ روپے) کی براہ راست سرمایہ کاری کا امکان ظاہر کیا جارہا ہے۔

پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ 3 ڈی ٹی ایچ لائسنسوں کی نیلامی کے لیے 3 غیر ملکی آپریٹرز سمیت 12 کمپنیوں کو شارٹ لسٹ کیا گیا ہے، جبکہ لائسنس کی معیاد 15 سال ہوگی۔

ڈی ٹی ایچ کو پاکستانی الیکٹرانک میڈیا کے لیے گیم چینجر قرار دیتے ہوئے پیمرا حکام کا کہنا تھا کہ اس سے نہ صرف سروس کے معیار میں بہتری آئے گی بلکہ صارفین کو انتخاب کے لیے وسیع آپشن میسر ہوں گے اور معیشت کے لیے بھی نفع بخش آمدنی حاصل ہوسکے گی، جس سے چند اینالاگ کیبل آپریٹرز کی اجارہ داری کا خاتمہ ہوجائے گا۔

ان کا مزید بتانا تھا کہ ڈی ٹی ایچ کے آنے سے کیبل آپریٹرز کا کاروبار ختم نہیں ہوگا، بلکہ یہ انہیں ٹیکنالوجی اور تقسیم کار نظام میں سرمایہ کاری کرنے پر راغب کرے گا۔

پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا سبسکرائبرز کی تعداد 12 ملین کے لگ بھگ ہے جن میں سے 3 سے 5 ملین صارفین غیرقانونی طور پر انڈین ڈی ٹی ایچ کا استعمال کرتے ہیں، لائسنس کی نیلامی کا عمل مکمل ہونے کے بعد انڈین ڈی ٹی ایچ استعمال کرنے والے صارفین کو مقامی نیٹ ورک پر آنا پڑے گا۔

غیر ملکی چینلز کو مقامی نظام کے تحت نگرانی کے عمل سے گزرنے کے بعد نشر ہونے کی اجازت حاصل ہوسکے گی جبکہ نئے مقامی سیٹلائٹ چینلز کے آغاز کی بھی اجازت ہوگی۔

یہ بھی پڑھیں: 'ڈی ٹی ایچ کی نیلامی مؤخر کی جائے'

حکام کا مزید بتانا تھا کہ اس وقت استعمال ہونے والا اینالاگ تقسیم کار نظام زیادہ سے زیادہ 80 چینلز فراہم کرتا ہے جبکہ ڈی ٹی ایچ آنے کے بعد اس کی گنجائش 250 تک بڑھ جائے گی، توقع ظاہر کی جارہی ہے کہ ہر ڈی ٹی ایچ لائسنس رکھنے والی کمپنی کے کم از کم 5 لاکھ سبسکرائبرز ہوں گے۔

اس وقت بھی ایک چینی کمپنی براڈ کاسٹ کی گھروں تک فراہمی کے لیے سیٹ ٹاپ باکس (ایس ٹی بی) بنانے کے لیے کمپنی کے قیام کے مراحل سے گزر رہی ہے، صارفین کے لیے ایس ٹی بی کی ابتدائی قیمت ساڑھے 3 ہزار روپے کے قریب ہوگی جسے وہ ڈی ٹی ایچ آپریٹر کو قسطوں میں ادا کرسکیں گے جبکہ ماہانہ سبسکرپشن کی مد میں تقریباً 550 روپے ادا کرنے پڑیں گے۔

پیمرا حکام کا مزید بتانا ہے کہ یہ پاکستانی الیکٹرانک میڈیا میں ہونے والی سب سے بڑی سرمایہ کاری ہوگی، شارٹ لسٹ ہونے والی کمپنیوں سے متعلق لگائے گئے ایک محتاط اندازے کے مطابق 150 ملین ڈالر سرمایہ کاری کی امید ظاہر کی جارہی ہے اور آئندہ دو سالوں میں 3 لائسنس یافتہ کمپنیوں کی جانب سے آپریشن کے پھیلاؤ میں وسعت کے بعد یہ آمدن 250 ملین ڈالر تک جاسکتی ہے، واضح رہے ان اندازوں میں نیلامی کے آغاز سے پہلے کی قیمت شامل نہیں جو ہر لائسنس کے لیے 200 ملین روپے رکھی جائے گی۔

مزید پڑھیں: 'پاکستانی ڈی ٹی ایچ کی بولی 23 نومبر کو ہوگی'

لائسنس یافتہ کمپنیاں بلاواسطہ 1500 افراد کو ملازمت پر رکھ سکیں گی اور آئندہ دو سے تین سالوں میں ڈی ٹی ایچ کے استعمال میں اضافے کے ساتھ ساتھ بلواسطہ 15 ہزار افراد کو ملازمت کے مواقع حاصل ہوں گے۔

نیلامی کے لیے شارٹ لسٹ کی گئی کمپنیوں میں سے سٹارٹائمز کمیونیکیشن لمیٹڈ کو چینی آپریٹر سے 49 فیصد شیئر ہولڈنگ حاصل ہوگی، پارس میڈیا اینڈ براڈکاسٹ لمیٹڈ کو روسی آپریٹر سے 49 فیصد جبکہ اسمارٹ اسکائی لمیٹڈ (جو جزوی طور پر پی ٹی سی ایل کے غیر ملکی شیئر ہولڈرز کی ملکیت ہے) کو بھی غیر ملکی شیئر ہولڈنگ حاصل ہوگی۔

حکام کے مطابق قانون غیرملکی کمپنیوں کو اکثریتی شیئرہولڈنگ کی اجازت نہیں دیتا اس لیے 51 فیصد شیئرز پر مقامی شراکت داروں کا اختیار ہونا ضروری ہے۔

یہ بھی پڑھیں: غیر قانونی ڈی ٹی ایچ کا قانونی متبادل کیا ہے؟

نیلامی کے منتخب شدہ دیگر کمپنیوں میں اورینٹ الیکٹرونکس آف لاہور، میگ انٹرٹینمنٹ آف لاہور، آئی کیو کمیونیکیشن آف کراچی سمیت اسلام آباد کی اسکائی فلِکس، سردار بلڈرز، ناواٹیل، ماسٹرو میڈیا ڈسٹری بیوشن، شہزاد اسکائی لمیٹڈ اور ایچ بی ڈی ٹی ایچ نامی 6 کمپنیاں شامل ہیں۔

حکام کے مطابق انٹرنیشنل ٹیلی کمیونیکشن یونین (آئی ٹی یو) معاہدے کی شرائط کے تحت پاکستان کو اپنے براڈکاسٹ نظام میں جدت لانا تھی لیکن یہ کام مؤخر ہوتا چلا گیا۔

ڈی ٹی ایچ کی نیلامی کے بعد، لائسنس یافتہ کمپنیوں کو ایک سال کے اندر اندر اپنے کام کا آغاز کرنا ہوگا ورنہ ان کو لائسنس کے خاتمے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

بولی لگانے والی کمپنیوں کو بولی میں لگائی گئی قیمت کا 15 فیصد پیشگی ادائیگی کی طور پر دینا پڑے گا جبکہ بولی کے اختتام پر 50 فیصد ادا کرنا پڑے گا، جس کے بعد بقیہ رقم فوراً یا مارک اپ ریٹ (کراچی انٹربینک کے پیش کردہ ریٹ) کے مطابق سالانہ 3 قسطوں میں ادا کی جاسکے گی۔

ہر ڈی ٹی ایچ لائسنس ہولڈر کو 10 ملین روپے سالانہ فیس ادا کرنی پڑے گی اور کام کے تین ابتدائی سالوں کے دوران اپنی کل آمدن کا 2 فیصد بھی ادا کرنا پڑے گا۔

حکام کے مطابق، تینوں آپریٹرز کا سالانہ ریونیو 24 بلین روپے سے زائد ہوگا، بولی میں حصہ لینی والی کمپنیوں کو کم از کم 2 سال تک اپنے ڈائریکٹرز تبدیل کرنے کی اجازت بھی نہیں ہو گی۔

ان کا مزید بتانا تھا کہ مقامی براڈکاسٹرز کو قانون کے تحت تقسیم کی اجازت حاصل نہیں اور پیمرا کی معلومات کے مطابق شارٹ لسٹ کی گئی کمپنیوں کے بھی مقامی براڈکاسٹرز سے کوئی تعلقات نہیں۔

یہ خبر 18 نومبر 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں