اسلام آباد: پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی رہنماء شرمیلا فاروقی کا سندھ میں اقلیتوں کے جبری طور پر مذہب تبدیل کروانے کے خلاف سندھ کرمنل لاء (اقلیتوں کے تحفظ کے) بل کے حوالے سے کہنا ہے کہ سندھ حکومت کی جانب سے پیش کئے گئے اس بل کو تمام جماعتوں کی جانب سے متفقہ طور پر منظور کیا گیا تھا ۔

ڈان نیوز کے پروگرام ' نیوز وائز ' میں گفتگو کرتے ہوئے شرمیلا فاروقی نے کہا کہ مذہب کی جبری تبدیلی کے مسئلے کا حل پیش کرنا بہت ضروری تھا اس لئے یہ بل ایک ایک شق پر بہت غور کے بعد پیش کیا گیا ۔

ان کا کہنا تھا کہ بل کی ایک شق کے مطابق 18 سال سے کم عمر افراد کا جبری طور پر مذہب تبدیل نہیں کرایا جا سکتا تاہم اگر کوئی اپنی مرضی سے مذہب تبدیل کرے تو اس پر کوئی پابندی نہیں ہے۔

رہنماء پی پی پی کے مطابق چند مذہبی جماعتوں کی جانب سے بل پر تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے ہم انھیں یہ بتانا چاہتے ہیں کہ اس بل میں کوئی شق اسلام یا شریعت کے منافی نہیں ہے۔

مزید پڑھیں:سندھ میں مذہب کی جبری تبدیلی پر 5 سال قید کی سزا

شرمیلا فاروقی نے کہا کہ ہم اس بل کو انا کا مسئلہ نہیں بنائیں گے اگر کسی جماعت کو اس سے شکایت ہے تو ہم علماء دین سے اس پر مشاورت کریں گے ہم چاہتے ہیں کہ ایک اچھے قانون کے نفاذ میں کوئی رکاوٹ نہ ہو ۔

بل کی مخالفت کے حوالے سے پی پی پی کی رہنماء نے کہا کہ اس بل پر مخالفت کا سامنا کرنا پڑا اور اس پر کام کرنے والی کمیٹی کے اراکین کو دھمکیاں دی گئیں تاہم سندھ حکومت کسی قسم کا دبائو محسوس نہیں کر رہی ۔

انھوں نے مزید کہا کہ سندھ اسمبلی نے ہمیشہ وہ معاملات اٹھائے ہیں جو نہ پہلے کسی دوسری صوبائی اسمبلی نے اٹھائے ہیں اور نہ ہی مستقبل میں اٹھانے کا عندیہ نظر آرہا ہے، تاہم ہم نے فیصلہ عوام کی بہتری کے لیے کیا جس کا مقصد ماضی میں جبری تبدیلی کے مسئلے کو حل کرنا ہے جو کہ وقت کی ضرورت ہے۔

یہ بھی پڑھیں:مذہب کی جبری تبدیلی: سندھ حکومت کا بل پر نظرثانی کا فیصلہ

شرمیلا فاروقی کے مطابق سول سوسائٹی اس بل کے حق میں آواز اٹھائے اور اس کی حمایت کرے ہے جبری مذہب کی تبدیلی اسلام میں بہت بڑی ذیادتی ہےجس کی روک تھام کے لئے اگر قانون سازی کی گئی ہے تو اس کی حمایت ہونا چاہیے۔

واضح رہے کہ گذشتہ ماہ سندھ اسمبلی میں مسلم لیگ فنکشنل سے تعلق رکھنے والے رکن اسمبلی آنند کمار گولکانی سندھ کرمنل لاء (اقلیتوں کا تحفظ ) بل پیش کیا ۔

بل کے تحت زبردستی مذہب تبدیل کرانے پر 5 سال تک قید کی سزا ہو سکے گی جبکہ 18 سال سے کم عمر پر مذہب کی تبدیلی قابل تعزیر جرم ہو گا اس کے علاوہ بالغ شخص کو مذہب تبدیل کرنے پر غور کے لئے 21 دن کا وقت دیا جائے گا ۔

تاہم بل پیش کئے جانے کے بعد علماء دین کی جانب سے اس کی چند شقوں پراعتراض کے بعد سندھ حکومت نے صوبائی اسمبلی سے منظور ہونے والے بل پر نظر ثانی کا فیصلہ کیا تھا ۔

مزید پڑھیں:ایک ہندو لڑکی کی بپتا

بل کے بارے میں علماء دین کا خیال تھا کہ بل کی بعض شقیں اسلامی تعلیمات کے خلاف اور آئیں کے متصادم ہیں۔

یاد رہے کہ اندرون سندھ میں رہنے والے ہندو برادری کی جانب سے مذہب کی زبردستی تبدیلی کی شکایت کی جاتی ہے ، اس مسئلے کے حل کی جانب قدم اٹھاتے ہوئے رواں سال پیپلز پارٹی کےسینئر رہنماء نثار کھوڑ کی جانب سے سندھ اسمبلی میں ہندو برادری کی شادیوں کو رجسٹر کرنے کے حوالے سے ' ہندو میرج ' بل پیش کرنے کے بعد منظور کیا گیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں