پشاور: ایک سینئر حکومتی عہدیدار نے خبردار کیا ہے کہ صوبوں اور وفاق کے درمیان ملک کے قبائلی علاقوں میں موجود ذخائر، یہاں بنیادی ڈھانچے کیلئے سرمایہ کاری پر ریوینو شیئر کرنے اور سماجی و اقتصادی ترقی کی منصوبہ بندی کے حوالے سے اختلافات موجود ہیں، جو منظوری کے منتظر فاٹا اصلاحات پر اثر انداز ہوسکتے ہیں۔

سینئر سرکاری عہدیدار کا کہنا تھا کہ فاٹا اصلاحات کمیٹی کے سربراہ سرتاج عزیز اپنی 80 صفات پر مشتقل رپورٹ کو فوری طور پر کابینہ سے منظور کرانے کیلئے مستقل کوششوں میں مصروف ہیں، اس حوالے سے کابینہ میں شامل کچھ سینئر عہدیداروں کا ماننا ہے کہ معاشی پیکج پر کام کیے بغیر اصلاحات کے حوالے سے کی جانے والی کوششیں بے کار ہوجائیں گی۔

سینئر سرکاری عہدیدار کا کہنا تھا کہ 'اس کے باوجود کہ یہ ایک مکمل اصلاحات کا پیکج ہے لیکن ان اصلاحات کیلئے معاشی یقین دہانی کی ضرورت ہے، اس کے بغیر مجھے خدشہ ہے کہ اصلاحات کا فائدہ حاصل نہیں ہوگا'۔

ان کا کہنا تھا کہ تجویز کی جانے والی اصلاحات کابینہ سے منظور کرانا مسئلہ نہیں ہے لیکن اصل مسئلہ اس کیلئے فنڈز کی فراہمی ہے'۔

سرتاج عزیز کی جانب سے تجویز کیے جانے والے اصلاحات پیکچ کابینہ کے آئندہ کے اجلاس میں پیش کیا جائے گا، لیکن 'مالی انتظامات برداشت کرنے کے حوالے سے وفاق اور صوبوں جبکہ وفاقی حکومت کے اندر بھی بحث کا آغاز ہوگیا ہے'۔

وزیراعظم کے مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز نے وفاقی کابینہ پر اصلاحات پیکج کو کسی بھی مالی انتظامات سے قبل منظور کرنے پر زور دیا ہے۔

سرتاج عزیز نے ڈان سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ' پہلے وفاقی کابینہ کو اسے منظور کرنے دیں'۔

مشیر خارجہ کا کہنا تھا کہ 'مالی معاملات کو بعد میں بھی دیکھا جاسکتا ہے، ہمیں منصوبے اور کام کے تخمینے کیلئے تیاری کرنی ہے جس کیلئے بہت وقت درکار ہے'۔

انھوں نے زور دیا کہ 'مالی انتظامات کیلئے اصلاحات کی منظوری میں تاخیر کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے'۔

تاہم کچھ وفاقی وزراء کا کہنا ہے کہ مالی انتظامات کا معاملہ پہلے حل ہونا چاہیے۔

سرکاری عہدیدار کا کہنا تھا کہ وفاق، فاٹا کے سالانہ ترقیاتی فنڈ میں صرف دو فیصد اضافہ کرسکتی ہے، جو تقریبا 60 ارب روپے ہے۔

یاد رہے کہ فاٹا کا حالیہ سالانہ ترقیاتی فنڈ (17-2016) کیلئے 18.2 ارب روپے ہے، ایک سرکاری عہدیدار کا کہنا تھا کہ 'یہ ایک بڑی رقم ہے اور فاٹا میں تبدیل لاسکتی ہے جبکہ خیبرپختونخوا سے ہم آہنگ کرنے کیلئے ترقیاتی کاموں میں تیزی کا باعث بھی بن سکتی ہے'۔

اس حوالے سے اہم اور اصل مسئلہ یہ ہے کہ چاروں صوبوں میں سے کوئی بھی اپنے حصے میں سے مزید کٹوتی برداشت نہیں کرنا چاہتا۔

وفاقی حکومت نے اس معاملے کو مشترکہ مفادات کی کونسل اور نیشنل فنانس کمیشن کے آخری اجلاس میں جلد بازی میں پیش کیا۔

جس پر صوبوں نے شکایت کی کہ نہ تو انھیں اس حوالے سے معلومات فراہم کی گئی ہیں اور نہ ہی وہ اس کیلئے تیار ہیں۔

وفاقی معاملات سے واقف ایک سرکاری عہدیدار کا کہنا تھا کہ آئندہ کے این ایف سی اجلاس میں وفاق، صوبوں کے حصے میں کسی قسم کی کٹوتی کی تجویز پیش کرسکتا ہے۔

وفاقی حکومت کے عہدیدار نے اس اُمید کا اظہار کیا کہ پنجاب اور بلوچستان کو مذکورہ فارمولے پر متفق کرلیا جائے گا۔

ان کا موقف تھا کہ خیبرپختون خوا کو اس علاقے میں سرمایہ کاری کرنی چاہیے جسے بعد ازاں اس میں شامل کردیا جانا ہے، اور تحریک انصاف کی اتحادی حکومت کے لیے ضروری ہے کہ وہ سندھ کو بھی اس پر متفق کرلے۔

خیال رہے کہ صوبے پہلے ہی پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کی سیکیورٹی کیلئے وفاق کی جانب سے ان کے حصے سے 3 فیصد اور موسمیاتی تبدیلی اور پائیدار ترقی کے اہداف کیلئے ایک فیصد مختص کرنے پر وفاق کے خلاف ہوگئے ہیں۔

خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ پرویز خٹک کا کہنا تھا کہ ان کا صوبہ پہلے ہی سے ذرائع آمدن کی کمی کا شکار ہے اور اس حوالے سے کی جانے والی کمی مزید مشکلات پیدا کرسکتی ہے۔

ایک سینئر حکومتی عہدیدار نے بتایا کہ 'وفاق اور صوبوں کے درمیان ایک وسیع بد اعتمادی کا عنصر موجود ہے'۔

ان کاکہنا تھا کہ اپنے مالی وسائل کو پورا کرنے میں ناکامی کے باعث وہ صوبوں کے وسائل پر انحصار کرتا ہے جس کیلئے 18 ویں ترمیم اور صوبوں کے این ایف سی ایوارڈ میں شیئرز نے مشکلات کھڑی کردی ہیں۔

صوبے اس خدشے کا اظہار کررہے ہیں کہ اگر انھوں نے اپنے حصے سے کچھ رقم کم کرنے پر اتفاق کرلیا تو وفاقی حکومت کیلئے مزید کٹوتیوں کا جواز پیدا ہوجائے گا۔

سرکاری عہدیدار کا کہنا تھا کہ 'یہ صرف فاٹا کے معاملے کیلئے ہے، ہم اس حوالے سے بات چیت کرچکے ہیں لیکن ہمیں گلگت بلتستان اور آزاد کشمر کیلئے بھی کچھ کرنا ہے، جن کا خیال وفاقی حکومت رکھے گی'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'اس حوالے سے وفاقی حکومت کو اپنے کارڈ میز پر اور تفصیلات شیئر کرنے دی جائیں'۔

انھوں نے مزید کہا کہ انھیں پہلے ان کے منصوبوں کے بارے میں معلومات فراہم کرنے دیں اور اس کے بعد ہم دیکھیں گے کہ کیا ہوسکتا ہے، لیکن اس وقت میں دیکھا رہا ہوں کہ آئندہ کے این ایف سی ایوارڈ کے اجلاس میں ایسا ہونے نہیں جارہا۔

یہ رپورٹ 14 جنوری 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں