پنجاب حکومت کی جانب سے جاری میمو میں سفری سہولت فراہم کرنے والی کمپنیوں اوبر اور کریم کو غیر قانونی قرار دیے جانے کے چند گھنٹوں بعد پنجاب آئی ٹی بورڈ کے چیئرمین عمر سیف نے اس بات کی وضاحت کی کہ فیصلے پر 'نظرثانی' کی جارہی ہے۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا پنجاب میں ان کمپنیوں پر پابندی لگادی جائے گی تو عمر سیف نے ڈان کو بتایا کہ 'حکومت اس معاملے پر نظر ثانی کررہی ہے، ہم رسمی پالیسی کے ساتھ آرہے ہیں، وہ میمو داخلی طور پر بھیجا گیا تھا جو قبل از وقت منظر عام پر آگیا'۔

عمر نے بتایا کہ اوبر اور کریم فی الحال پاکستان میں کوئی ٹیکس ادا نہیں کررہے اور پنجاب حکومت اس معاملے کو انوویٹو بزنس ماڈل کے تحت حل کرنے کی کوشش کررہی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سندھ میں کریم اور اوبر سروسز کے خلاف کارروائی شروع

انہوں نے کہا کہ 'اس معاملے پر حکومت کی حکمت عملی دو نکات پر مبنی ہوسکتی ہے، پہلی یہ کہ جب یہ کمپنیاں لانچ ہوں تو انہیں ٹیکسی سروس سمجھا جائے یا پھر انہیں ایسی سروس تصور کیا جائے جسے حکومت قانون کے دائرے میں لاسکے'۔

انہوں نے بتایا کہ 'ہم ان کمپنیوں کے ساتھ ٹیکسی سروس جیسا برتاؤ نہیں کرنا چاہتے لیکن انہیں قانون اور ٹیکس کے دائرے میں آنا ہوگا، انہیں نئے ٹیکس قوانین کے تحت باضابطہ کاروبار کے طور پر رجسٹر ہونا ہوگا'۔

جب ان سے نئے منصوبے کے حوالے سے پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا کہ جیسا کہ ان کمپنیوں کے لیے ملائیشیا، مصر اور انڈونیشیا وغیرہ میں ٹیکس قوانین ہیں ہمارا ماڈل بھی اسی طرح کا ہوگا اور ان ممالک میں ایسی کمپنیوں کو 'نیٹ ورک سروس پرووائیڈرز' کہا جاتا ہے۔

اوبر اور کریم پاکستان کیلئے بہتر سروس

یوں محسوس ہوتا ہے کہ صوبائی ٹرانسپورٹ اتھارٹی کا خط عمر سیف کے لیے حیرانی کا باعث بنا کیوں کہ وہ خود پنجاب حکومت کی کابینہ کے رکن ہیں۔

مزید پڑھیں: پاکستان کے مزید 5 شہروں میں کریم سروس کا آغاز

انہوں نے بتایا کہ 'ہم کافی جدوجہد کے بعد انہیں پاکستان لائے ہیں اور ان سے پہلے دن سے ہی مذاکرات ہورہے تھے، ہم نے ان سے سفارشات طلب کی تھیں اور ان کی محکمہ ٹرانسپورٹ اور صوبائی حکام کے ساتھ تفصیلی ملاقاتیں بھی ہوئی تھیں'۔

عمر سیف نے کہا کہ پاکستان جیسے ملک کے لیے ایسی سروسز بہترین ہیں کیوں کہ ہمارے ہاں ٹرانسپورٹ کا انفرااسٹرکچر زیادہ بہتر نہیں۔

انہوں نے بتایا کہ 'حکومت اس معاملے میں متوازن حکمت عملی اپنائی ہوئی ہے، ہم چاہتے ہیں کہ نئی ٹیکس پالیسی لائی جائے جو لوگوں کو روزگار کے مواقع بھی فراہم کرے اور اس صنعت کو قانون کے دائرے میں بھی لائے'۔


ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں