لکھاری نئی دہلی میں ڈان کے نمائندے ہیں۔
لکھاری نئی دہلی میں ڈان کے نمائندے ہیں۔

سفارت کاری ایسا نایاب محکمہ ہے جہاں آج بھی آپ کو کچھ آزاد خیال لوگ مل جاتے ہیں۔ ایک سابق ہندوستانی سفارت کار ایک دفعہ انڈونیشیا میں تعینات تھے۔ انہوں نے جو بات مجھے بتائی، اس نے مجھے خوف میں مبتلا کر دیا۔

جب برطانیہ نے جنوب مشرقی ایشیاء کی فیصلہ کن جنگ میں جاپان کو شکست دی تو سبھاش چندرا بوس کی شکست خوردہ انڈین نیشنل آرمی کے سپاہیوں کا ایک گروہ انڈونیشیا کے محفوظ علاقوں میں آ بسا۔

اگست 1947 میں آزادی کے بعد وہ سپاہی جنہوں نے برٹش راج کے خلاف جان کی بازیاں لگائی تھیں، وہ ہندوستان واپس جانے کے لیے انڈونیشیا میں نئے ہندوستانی سفارت خانے گئے۔ ان سے ان کا مذہب پوچھا گیا۔ مسلمانوں سے کہا گیا کہ وہ پاکستانی سفارت خانے میں درخواست دیں۔ تب سے لے کر اب تک حالات میں زیادہ تبدیلی نہیں آئی ہے.

یا آئی ہے؟

بابو خان 'مستری' لکھنؤ میں ایک گیراج چلاتے تھے جہاں میرے والد کی فورڈ پرفیکٹ کا کسی پالتو جانور کی طرح خیال رکھا جاتا تھا۔ بابو فراق گورکھپوری کی طرح ہر موسم میں اونی ٹوپی پہنے رکھتے، اور بات چیت میں اردو اشعار کا بے دریغ استعمال کرنا پسند کرتے تھے۔

وہ 1950 کی دہائی میں مناسب ملازمت کی تلاش میں ناکامی کے بعد کراچی سے واپس لوٹ آئے تھے۔ اس طرح وہ اقتصادی مہاجر تھے، جیسے کہ زیادہ تر مہاجرین ہوتے ہیں۔ بابو کو لکھنؤ کی یاد ستاتی تھی اور انہیں لگتا تھا کہ وہ اب بھی اپنے پرانے شہر میں زندگی کی گاڑی چلا سکتے ہیں۔

ہندوستانی قانون میں 'گھر کی یاد ستانے' جیسے جذبات کی کوئی گنجائش نہیں تھی، لہٰذا جلد ہی پولیس بابو کو پاکستان واپس بھیجنے کے لیے آ پہنچی۔ میرے والد وکیل تھے اور نہرو کے زبردست حامی تھے۔ طالبِ علمی کے دور سے ہی وہ اپنے بازو پر گولی کا زخم لیے گھوم رہے تھے۔

تحریکِ آزادی کے ایک نوجوان کارکن کے طور پر وہ لکھنؤ کے کرسچن کالج کی چھت پر چڑھ گئے جہاں ایک سینیئر برطانوی افسر نے آنا تھا۔ ان کا کام سلطنتِ برطانیہ کا پرچم پھاڑ کر اتارنا اور اس کی جگہ ہندوستانی پرچم لگانا تھا۔

میرے والد کو کالج سے معطل کر دیا گیا مگر اس سے پہلے ہاتھا پائی میں انہیں بازو پر گولی لگ چکی تھی۔ انہوں نے بابو کو عدالت سے اسٹے آرڈر دلوا دیا، چنانچہ بابو اپنی وفات تک لکھنؤ میں ہنسی خوشی زندگی بسر کرتے رہے۔

میرے والد ایک کام جو مفت میں معمول کے ساتھ کیا کرتے تھے، وہ لوگوں کو اسٹے آرڈر دلوانا تھا، جو شاید اب لکھنؤ واپس آنے والے پاکستانیوں کے لیے حاصل کرنا ممکن نہ ہو۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ شام بینیگل کی فلم مَمّو میں بھی ایسی ہی کہانی تھی جس میں ایک سادہ مزاج مسلمان عورت پولیس کو چکمہ دیتی رہتی ہے تاکہ وہ اپنی بہن اور بھانجے کے ساتھ پرانی بمبئی میں رہ سکے۔

میرے ایک رشتے دار، مرحوم پروفیسر ایس ایم نصیر کو تحریکِ آزادی کے دوران مار پیٹ کر کانپور میں قید کر دیا گیا تھا۔ وہ کمیونسٹ تھے۔ ان وجوہات، جن کی بناء پر کئی لبرل مسلمان پاکستان چلے گئے تھے، کی بناء پر نصیر نے بھی پاکستان ہجرت کر لی اور کراچی میں ایک ہر دلعزیز پروفیسر بن گئے۔

پھر ایک دن انہیں یہ جان کر دھچکا لگا کہ انہیں کبھی بھی ہندوستان کا ویزا نہیں مل سکتا۔ پھر مشیرِ قومی سلامتی جے این ڈکشٹ نے فائلز نکالیں تو نصیر کی فائل میں انہیں حیران کن حقائق ملے۔ ڈکشٹ جان گئے کہ نصیر کو ویزا کیوں نہیں مل رہا تھا۔ ہندوستانی سی آئی ڈی نے نصیر کو اس لیے بلیک لسٹ کر رکھا تھا کیوں کہ برطانوی حکومت انہیں بطور کمیونسٹ حکومت کے لیے خطرہ قرار دے چکی تھی۔

نصیر کو بالآخر ویزا ملا، اور وہ رائے بریلی کے قریب مصطفیٰ آباد میں اپنے آبائی قبرستان میں پھوٹ پھوٹ کر روئے، جہاں ان کے کئی کزن اور بڑے مدفون ہیں۔ نصیر ہندوستان اسی لیے آئے تھے۔

کئی پاکستانی ایسے تھے جنہیں ہندوستانی ویزے اس لیے مل جاتے تھے کیوں کہ وہ کسی نہ کسی طرح ترقی پسند تحریک سے وابستہ تھے۔ فیض اس سلسلے میں ایک واضح مثال ہیں۔ مگر سجاد ظہیر پاکستان سے واپس ہندوستان چلے گئے، اور انہیں ہندوستانی شہریت حاصل کرنے کے لیے بابو کی طرح اسٹے آرڈر بھی نہیں لینا پڑا۔

یہ قسمت کی بات ہے۔ روابط سے مدد ملتی ہے۔ اور پاکستانی درخواست گزاروں کے لیے ہندوستانی ویزا کا حصول اس وقت نہایت آسان ہوجاتا ہے جب وہ غیر مسلم ہوں۔

اس تفریق نے انڈین نیشنل آرمی کے سپاہیوں کو بھی نہیں بخشا۔ پرسوں ہندوستانی وزیرِ داخلہ راج ناتھ سنگھ پاکستانیوں کے بارے میں استہزاء انگیز بیان کو سنتے ہوئے میرے ذہن میں یہی نقطہءِ نظر چل رہا تھا۔

پڑھیے: پاکستان میں بھارت سے انضمام کیلئے ریفرنڈم ہونا چاہیے: راج ناتھ سنگھ

ان کی تقریر نے مجھے ایک نہایت واضح شعر یاد دلا دیا :

لگے منہ بھی چڑانے دیتے دیتے گالیاں صاحب

زباں بگڑی تو بگڑی تھی خبر لیجئے دہن بگڑا

سب لوگ جانتے ہیں کہ پاکستانی اس مذہبی انتہاپسندی سے خوفزدہ ہیں جس کی پرورش میں انہوں نے بالواسطہ یا بلاواسطہ کردار ادا کیا ہے۔ مفید مشورہ دینے کے بجائے سنگھ صاحب نے پاکستانیوں سے کہا کہ اگر وہ ہندوستان ہجرت کرنا چاہتے ہیں تو ریفرینڈم کروا لیں۔

یا شاید کہا تھا کہ ریفرینڈم ہندوستان کے ساتھ انضمام کے لیے ہونا چاہیے۔ لیکن انہوں نے وضاحت کی کہ ریفرینڈم کا یہی اختیار کشمیریوں کو نہیں دیا جا سکتا کیوں کہ کشمیر ہندوستان کا 'اٹوٹ انگ' ہے۔

تو سنگھ کے بیان کا مقصد کیا تھا؟ یہ سوال اس سے پہلے ہندوستانی کے زعیم سیاسی رہنماؤں کی جدوجہد کو مدِنظر رکھتے ہوئے پوچھ رہا ہوں، اور یہ مذاقاً نہیں بلکہ دلی طور پر جاننے کی ایک کوشش ہے۔

بائیں بازو کے رام منوہر لوہیا ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ایک کنفیڈریشن کا خواب دیکھتے دیکھتے اس دنیا سے چلے گئے۔ نہرو نے اپنی وفات سے ایک یا دو سال قبل کہا تھا کہ وہ بھی ہندوستان اور پاکستان کے درمیان کنفیڈریشن کے حامی تھے، مگر انہوں نے یہ تصور عوامی طور پر اس لیے پیش نہیں کیا کیوں کہ پاکستان کے لیے یہ تصور بھی خوفناک تھا۔ آپ کو یہ خزانہ گنر میرڈل کی کتاب 'ایشین ڈراما' کے زیریں حاشیوں میں ملے گا۔

تو چلیں اس تصور کا مذاق نہیں اڑاتے جسے سرحد کے دونوں اطراف موجود کھلے ذہن کے مرد و خواتین نے اپنایا، اور جسے وہ کبھی بھی نہیں جھٹلاتے۔

مگر جیسا کہ ریفرینڈمز میں ہوتا ہے، خلوصِ نیت سے ایک حقیقی طور پر توجہ طلب مسئلہ سنگھ صاحب کے سامنے پیش کرتا ہوں:

سنگھ صاحب کو چاہیے کہ وہ سرحدوں کو کھول دیں اور کھلے دل کے ساتھ ویزے جاری کریں۔ صرف اس کے بعد ہی طرفین یہ پوچھ سکتے ہیں کہ: کیا دونوں ممالک کے عوام پرامن طور پر ایک ساتھ رہنا چاہتے ہیں؟ کیا وہ دہشتگردی کی تمام صورتوں کے خلاف مل جل کر لڑنا چاہتے ہیں؟ کیا انہیں ایک دوسرے سے آزادانہ ملاقات کی اجازت ہونی چاہیے؟ کیا انہیں اپنے دیوہیکل دفاعی بجٹوں کو اسکولوں اور ہسپتالوں کی تعمیر پر لگانا چاہیے؟

یہ وہ مثالی صورتحال ہے جن کے لیے سبھاش چندرا بوس اور ان کے سپاہیوں نے جنگ لڑی۔ جواب ہم سب جانتے ہیں مگر سنگھ صاحب ان جوابات سے خوفزدہ ہوجائیں گے۔

انگلش میں پڑھیں۔

یہ مضمون ڈان اخبار میں 7 فروری 2017 کو شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں