اسلام آباد: پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان نے سپریم کورٹ آف پاکستان میں پاناما پیپر کیس کے حوالے سے ایک حلف نامہ جمع کرایا ہے جس میں عدالت سے درخواست کی گئی ہے کہ شریف خاندان کی جانب سے ثبوت کے طور پر پیش کیے جانے والے قطری شاہی خاندان کے خطوط کو نظر انداز کردیا جائے۔

5 نومبر اور 22 دسمبر 2016 کو عدالت میں پیش کیے جانے والے خطوط میں قطر کے سابق وزیراعظم اور وزیر خارجہ شیخ حماد بن جاسم بن جابر التھانی نے شریف خاندان کی جانب سے التھانی خاندان کے ریل اسٹیٹ کے کاروبار میں 1980 میں 1 کروڑ 20 لاکھ دھرم کی سرمایہ کاری اور معاہدے کی وضاحت پیش کی تھی۔

عدالت میں پیش کیے گئے 24 صفات پر مشتمل حلف نامے میں تحریک انصاف کے رہنما نے ان خطوط کو واضح طور پر من گھڑت کہانی قرار دیا۔

انھوں نے زور دیا کہ یہ خطوط ناقابل یقین ہیں اور قطری امراء کی جانب سے پاکستانی امراء کی مدد کیلئے ایک بچگانہ کوشش ہے۔

عمران خان نے قطر کے شاہی خاندان کے خطوط، طارق شفیع — وزیراعظم میاں نواز شریف کے کزن — اور عبدالرحمٰن محمد عبداللہ اور حسین نواز کے حلف ناموں کو مسترد کرنے کی درخواست کی۔

مذکورہ متنازع حلف ناموں میں کہا گیا ہے کہ قطر کے شاہی خاندان کے ساتھ 1 کروڑ 20 لاکھ دھرم کی نقد سرمایہ کاری کی گئی تھی اس لیے التھانی خاندان کے ساتھ معاہدے پر سوال نہیں اٹھ سکتا۔

عمران خان کے وکیل ایڈووکیٹ نعیم بخاری کی جانب سے عدالت میں جمع کرائے گئے حلف نامے میں کہا گیا ہے کہ 'شیخ حماد اور وزیراعظم نواز شریف کے درمیان ہونے والی رقم کی اس منتقلی کا کوئی بینک ریکارڈ موجود نہیں'۔

تاہم 20 جنوری 2017 کو وزیراعظم کے کزن شفیع کی جانب سے جمع کرائے گئے حلف نامے میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ 1980 میں گلف اسٹیل ملز کی فروخت کے بعد انھوں نے قطر کے شاہی خاندان کو 1 کروڑ 20 لاکھ دھرم جمع کرائے تھے۔

پی ٹی آئی کے چئیرمین کی جانب سے عدالت میں پیش کیے گئے حلف نامے کے مطابق اسی طرح، فروری 2006 کو وزیراعظم کے بچوں — مریم نواز اور حسین نواز — کے درمیان ہونے والے اعتماد کا معاہدہ نہیں ہوا جو لندن کے 4 فلیٹس کی ملکیت کے حوالے سے جعلی یا دوسری صورت میں کسی عمل کے بغیر ہے۔

عمران خان نے زور دیا کہ قطر کے شاہی خاندان کے خطوط التھانی خاندان کو ایک بینکر کے طور پر ظاہر کرتے ہیں۔

حلف نامے میں کہا گیا ہے کہ '20 سال تک جعلی سرمایہ کاری کے حوالے سے کوئی تفصیلات نہیں تھیں، لیکن 2000 میں التوفیق کمپنی کو سرمایہ کاری کی مد میں 80 لاکھ ڈالر کی بینک ٹرانسیکشن کے بغیر منتقلی دکھائی گئی ہے، جیسا کہ اس سے قبل طارق شفیع سے 1980 میں حاصل کی گئی تھی۔

اس میں مزید دعویٰ کیا گیا ہے کہ طارق شفیع کے پاس اس وقت رقم موجود نہیں تھی تاکہ وہ میاں شریف کی جانب سے دی جانے والی ہدایات پر عمل کرتے اور ان کے جنوری 2017 میں پیش کیے جانے والے حلف نامے میں بتائی گئی پیش رفت کہ، نقد رقم فہد بن جاسم بن جابر التھانی کو دبئی میں ان کے مختلف دوروں کے دوران ادا کی گئی تھی، غلط ہے۔

حلف نامے میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ اپنے آغاز سے اختتام تک دبئی گلف اسٹیل ملز مالی مشکلات کا شکار رہی تھی جبکہ 2000 میں حدیبیہ پیپر ملز کے ہونے والے آڈٹ میں بھی اس بات کی نشاندہی نہیں ہوتی کہ التوفیق کو قرضے کیلئے 80 لاکھ ڈالر کی رقم فراہم کی گئی تھی، اس کے بجائے کھاتے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ کسی شخص کی نشاندہی کیے بغیر ذمہ داری ایک نئے فرد کو دی گئی۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ 2001 میں حسین نواز نے لندن میں اپنی سرمایہ کاری کے لیے 10 لاکھ 38 ہزار ڈالر، فلیگ شپ اور دیگر کمپنیوں سے، وصول کیے تھے، اور ایک مرتبہ پھر اس حوالے سے کوئی بینک ٹرانسیکشن موجود نہیں ہے۔

پی ٹی آئی چیف کا کہنا تھا کہ حیرت کی بات یہ ہے کہ عزیزیہ اسٹیل مل کمپنی کو رقم کی منتقلی چیکس کے ذریعے کی گئی جب یہ سرمایہ ایک عرب ملک میں موجود تھا، ان کا مزید کہنا تھا کہ شریف خاندان کی جانب سے پیش کیے جانے والے دستاویز میں 2004 میں کی جانے والی 936766 ڈالر کی ادائیگی بھی نقدی کی صورت میں دکھائی گئی ہے کیونکہ اس حوالے سے بھی کوئی بینک ٹرانسپکشن موجود نہیں۔

حلف نامے میں کہا گیا ہے کہ وزیراعظم نوازشریف یہ ثابت کرنے میں ناکام رہے ہیں کہ انھوں نے قطر کے التھانی خاندان کے ریل اسٹیٹ کے بزنس میں سرمایہ کاری کی تھی اس کا ذکر نہ ہی پارلیمنٹ اور ٹیلی ویژن پر قوم کو دیے گئے خطاب میں اور یہاں تک سپریم کورٹ میں ان کے کزن کی جانب سے 3 نومبر 2016 کو جمع کرائے گئے بیان میں بھی موجود نہیں۔

فلیٹس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ نواز شریف کئی سالوں تک لندن مقیم رہے جہاں وکیل یا مختار کار کی مدد کے علاوہ جائیداد نہیں خریدی جاسکتی۔

خریدار کو معاہدے کے مطابق خریداری کی رقم وکیل یا مختار کار کے بینک اکاؤنٹ میں منتقل کرنا ہوتی ہے، جو حتمی معاہدے پر دستخط کرتا ہے اور رقم کو فروخت کنندہ کے وکیل یا مختار کار کے بینک اکاؤنٹ میں منتقل کرتا ہے، جو بعد ازاں جائیداد کی فروخت کرنے والے کے اکاؤنٹ میں رقم منتقل کردیتا ہے۔

پی ٹی آئی کے چیئرمین کے حلف نامے میں کہا گیا ہے کہ لیکن اب تک عدالت میں کوئی ایسا دستاویزی ثبوت پیش نہیں کیا گیا جو 1993 اور 1995 کے درمیان وزیراعظم نواز شریف یا حسین نواز کی جانب سے لندن کے 4 فلیٹس کی خریداری کیلئے شیخ حماد کے ذریعے رقم کی منتقلی کے حوالے سے بینک ٹرانسیکشن سے متعلق ہو۔

حلف نامے میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ 81 کروڑ 20 لاکھ روپے کے تحائف حسین نواز کی جانب سے نواز شریف کو بھیجے گئے تھے جبکہ حسین نواز کو 51 کروڑ روپے مالیت کے تحائف واپس بھیجے گئے، اسی طرح وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے مریم نواز کو تحفے کی صورت میں منتقل کی نقد رقم، ٹیکس کے قوانین کے مطابق قابل قبول نہیں۔

یہ رپورٹ 18 فروری 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں