تاجِ برطانیہ کے خلاف 1857 کی دلیرانہ اور مزاحم بغاوت کو سختی کے ساتھ کچل دیا گیا تھا۔ پھر حالات و واقعات سے بھرپور 90 سال بعد برٹش راج کے خلاف متحد ہو کر جنگ لڑنے کا دعویٰ کرنے والے ہندوؤں اور مسلمانوں نے اپنی راہیں جدا کر لیں۔ غصے، مخاصمت اور تشدد نے دونوں پر غلبہ پایا اور پورے برِصغیر میں ان کی آبادیوں کے وسیع تر حصے میں قتل و غارت کا بازار گرم ہوا۔

اب جبکہ سال 2017 میں اس بغاوت کو 160 سال مکمل ہو رہے ہیں تو ہمیں تاریخ کے اس اہم موڑ پر دونوں گروہوں کے ادا کردہ کردار کا جائزہ لینا چاہیے۔

اگر بغاوت میں ہندو، مسلم اور سکھ شامل تھے، تو ایسے ہندو، مسلم اور سکھ بھی تھے جو برٹش راج کے ساتھ تھے۔ اَودھ کے اہلِ تشیع نواب برٹش راج سے بغاوت کا اعلان کر چکے تھے، جبکہ رام پور کے اہلِ تشیع نواب نے تاجِ برطانیہ کا ساتھ دینے کا اعلان کیا۔

اسی طرح اہلِ سنت اصلاح پسندوں نے بغاوت کا ساتھ دیا، مگر بھوپال، جو اہلِ حدیث مکتبہءِ فکر سے متاثر تھا، ایسٹ انڈیا کمپنی سے وفادار رہا۔ اسی طرح کئی سکھوں، پٹھانوں اور ہندو راجواڑوں نے بغاوت کچلنے میں برطانیہ کی مدد کی۔

ہم میں سے کئی لوگ 1857 کے ہندو مسلم اتحاد کی مثالیں دیتے نظر آتے ہیں، مگر ہم ان دونوں گروہوں کے درمیان اور ان کے اندر موجود اختلافات اور عدم اتفاق کو نظرانداز کر جاتے ہیں۔ لہٰذا 1857 اور 1947، دونوں ہی کے سرنامے مشکوک ہیں۔ دونوں ہی معاملات میں کوئی ایک مسلم شناخت موجود نہیں تھی، اور نہ ہی کوئی ایک ہندو شناخت موجود تھی۔ حالاں کہ یہ 1857 میں ثابت ہو چکا تھا مگر پھر بھی 1947 میں اس سے نظریں چرائی گئیں تاکہ نئی انتخابی سیاست کو درپیش مسائل کا حل نکالا جا سکے۔

اس وقت ہر کوئی انتخابات میں کامیابی چاہتا تھا، لہٰذا ان گروہوں کو بھی اپنے اپنے کیمپ میں شامل کیا گیا جو ویسے اس کیمپ سے تعلق نہیں رکھتے تھے۔

اگر طرفین نے ڈاکٹر بی آر امبیدکر کی بات پر غور کیا ہوتا، تو وہ بغاوتِ 1857 میں شکست کی وجوہات پر غور کرتے، اور 1947 میں بٹوارے کی جانب کہیں زیادہ عقلیت پسندی اور تمام ممکنہ نتائج پر غور کرنے کے بعد ہی بڑھتے۔ نچلی ذاتوں، خصوصاً اچھوتوں (دلت) کا کردار آج بھی رائے عامہ میں کہیں نظر نہیں آتا۔

رائے عامہ میں 1857 کو ہندو مسلم اتحاد کے لیے اور 1947 کو ان کے اختلاف کے لیے یاد کیا جاتا ہے۔ امبیدکر دونوں کے بارے میں مختلف رویہ رکھتے تھے۔ اپنی کتاب The Annihilation of Caste، جسے دلت اپنی بائبل قرار دیتے ہیں، میں ڈاکٹر امبیدکر کہتے ہیں: "سب سے پہلے جس چیز کو تسلیم کرنا چاہیے، وہ یہ کہ ہندو معاشرہ ایک تصوراتی چیز ہے۔ لفظ ہندو محمدنز نے یہاں کے مقامی لوگوں کے لیے استعمال کیا تھا تاکہ انہیں خود سے ممتاز کیا جا سکے۔ یہ لفظ ہندوستان پر محمدن حملے سے پہلے کسی سنسکرت کتاب میں مستعمل نہیں ملتا۔ یہاں رہنے والوں نے اپنے لیے کسی ایک نام کی ضرورت اس لیے محسوس نہیں کی، کیوں کہ ان کے نزدیک یہ تصور ہی نہیں تھا کہ وہ ایک برادری ہیں۔

"چنانچہ ہندو معاشرہ نامی کوئی چیز موجود نہیں ہے، یہ صرف مختلف ذاتوں کا اجتماع ہے۔ ہر ذات اپنے وجود سے آگاہ ہے۔ اس کا وجود صرف تب تک ہے جب تک کہ یہ ذات باقی ہے۔ ذاتیں وفاق بھی نہیں بنا سکتیں۔ ایک ذات کو یہ احساس نہیں ہے کہ وہ دوسری ذاتوں سے تعلق رکھتی ہے، سوائے ہندو مسلم فسادات کے وقت۔ باقی تمام مواقع پر ذاتوں کی یہ کوشش رہتی ہے کہ وہ خود کو دوسری ذاتوں سے الگ تھلگ اور ممتاز رکھیں۔"

ذات پات کے معاملے

1857 میں ذات پات نے کیا کردار ادا کیا تھا؟

تاریخ کے بیانیے سے چند شرمناک چیزوں پر رنگ و روغن کر دیا گیا ہے۔ رام بائی اور بیگم حضرت محل میں سے ہم کس کی کامیابیوں سے زیادہ واقف ہیں؟ رام بائی مہاراشٹرا کے ایک ترقی پسند برہمن گھرانے میں پیدا ہوئی تھیں۔ انہیں اپنے محلے کے اچھوتوں کے ساتھ تعلق کی وجہ سے مشکلات اٹھانی پڑیں، ان میں سے ایک سے انہوں نے اپنے دورہءِ بنگال کے دوران شادی بھی کر لی تھی۔

عیسائیت قبول کر لینے کے بعد وہ ایک تعلیمی دورے پر انگلستان گئیں، جہاں سے لوٹنے کے بعد انہوں نے نچلی ذات کے ہندوؤں، خصوصاً ان کے بچوں اور کم سن بیواؤں کی زندگیوں میں بہتری کے لیے کوششیں شروع کر دیں۔

یہ عوامی دانشور 1858 میں پیدا ہوئی تھیں، وہی سال جب رام بائی سے سو فیصد مختلف بیگم حضرت محل نے جلاوطنی کے دوران ایک 'اشتہارنامہ' جاری کیا۔

ہمیں بار بار یہ یاد دلایا جاتا ہے کہ بیگم حضرت محل نے برٹش راج کے خلاف ہندوستان کی جنگ میں اہم ترین کردار ادا کیا تھا، جو کہ ظاہر ہے انہوں نے کیا ہی تھا۔ مگر ان کی اور تاجِ برطانیہ کے خلاف لڑنے والے ان کے دیگر ہم عصروں کی شخصیت کا ایک پہلو ہے جس پر کم ہی بات کی جاتی ہے۔

کیا بیگم حضرت محل ذات پات کی حامی تھیں؟
کیا بیگم حضرت محل ذات پات کی حامی تھیں؟

تاریخ پر تحقیق کے ہندوستانی ادارے انڈین کونسل آف ہسٹاریکل ریسرچ نے چند سال قبل باغی رہنماؤں کے اعلانات کا ایک پلندہ شائع کیا ہے۔ علی گڑھ یونیورسٹی کے ڈاکٹر اقبال حسین کی جمع کردہ یہ دستاویزات 1857 کی سماجی تاریخ پر ایک مختلف زاویے سے روشنی ڈالتی ہیں۔

اپنے بیٹے برجیس قدر (نوابِ اَودھ) کی طرف سے اپنی رعایا کے نام ایک پیغام، بتاریخ 25 جون 1858، میں حضرت محل اپنی رعایا پر زور دیتی ہیں کہ وہ ملکہ وکٹوریا کی بات پر کان نہ دھریں۔ کیوں؟ اس لیے کہ اَودھ نے اپنی رعایا کو مذہبی آزادی، عزت، اور ان کے جان و مال کو تحفظ فراہم کیا تھا، جو کہ برطانیہ نے فراہم نہیں کیا تھا۔ اودھ کی رانی اپنی رعایا کی وفاداری پر اپنے بیٹے کے حق پر روشنی ڈالتی ہیں۔

"(ہماری حکومت میں) ہر کوئی اپنے مذہب کی پیروی کرنے میں آزاد ہے۔ ہر شخص اپنی قدر اور اپنے رتبے کے لحاظ سے عزت پاتا ہے۔ اعلیٰ نسب کے لوگ، چاہے مسلمانوں میں سے سید، شیخ، مغل یا پٹھان ہوں، یا ہندوؤں میں سے برہمن، کھشتری، ویش، یا کیاستھ، اپنے اپنے مرتبے کے لحاظ سے عزت پاتے ہیں۔ اور نچلے طبقے کے تمام لوگ جیسے جمعدار، چمار، دھنوک، اور پاسی وغیرہ ان سے برابری کا دعویٰ نہیں کر سکتے۔"

آگے یہ اعلان چھری گھونپ چکنے کے بعد اسے مزید مروڑتا ہے۔

"(برطانویوں کے نزدیک) اعلیٰ نسب کے تمام لوگوں کی عزت اور تکریم نچلے طبقے کے لوگوں کی عزت و تکریم کے برابر ہے۔ لیکن نہیں، وہ مؤخر الذکر کے مقابلے میں اول الذکر لوگوں سے زیادہ توہین آمیز رویہ اختیار کرتے ہیں۔ جہاں بھی جاتے ہیں، قابلِ عزت لوگوں کو سزائے موت دے دیتے ہیں، اور کسی چمار کی شکایت پر نواب یا راجہ کو بھی پیش ہونے پر مجبور کر دیتے ہیں اور اس کی تذلیل کرتے ہیں۔"

واضح طور پر ویدک برہمن ازم سے جڑ پانے والی یہ سوچ، جو 6 دہائیوں بعد ڈاکٹر امبیدکر پر گراں گزرنے والی تھی، انیسویں صدی کے شمالی ہندوستان میں ایک مسلمان حکمران کے ذریعے اپنا کام دکھا رہی تھی۔

اور یہ بیماری آج بھی ختم نہیں ہو پائی ہے۔

یہ مضمون ڈان اخبار میں 4 مارچ 2017 کو شائع ہوا۔

انگلش میں پڑھیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں