اسلام آباد: قومی اسمبلی میں فوجی عدالتوں میں 2 سالہ توسیع کے لیے 28 ویں آئینی ترمیم کا بل دو تہائی اکثریت سے منظور کرلیا گیا۔

قومی اسمبلی کا اجلاس پیر کے روز اسپیکر ایاز صادق کی سربراہی میں ہوا جس میں 7 ماہ کے وقفے کے بعد وزیراعظم نواز شریف بھی موجود تھے۔

بل کی حمایت میں 255 ارکان نے ووٹ دیے جبکہ صرف 4 ارکان نے اس کی مخالفت کی۔

28 ویں آئینی ترمیم کے بل کو اب سینیٹ میں پیش کیا جائے گا اور اسے قانون کا درجہ حاصل کرنے کے لیے سینیٹ سے دو تہائی اکثریت سے منظوری حاصل کرنی ہوگی۔

یہ بھی پڑھیں: فوجی عدالتوں کی توسیع :28 ویں آئینی ترمیم کا بل اسمبلی میں پیش

28ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد ملک بھر میں فوجی عدالتوں کی مدت میں مزید دو سال کی توسیع ہوجائے گی جس کی مدت رواں برس 7 جنوری کو ختم ہوگئی تھی۔

28 ویں آئینی ترمیم کا بل وزیر قانون زاہد حامد نے پیش کیا جبکہ اس حوالے سے اپوزیشن کی جانب سے گرما گرم بحث بھی کی گئی۔

جمیعت علمائے اسلام (ف) کے ارکان اسمبلی نے ووٹنگ کے عمل میں حصہ نہیں لیا اور کہا کہ انہیں بل کے متن پر تحفظات ہیں اور خاص طور پر 'مذہب کے نام پر دہشت گردی' کے جملے پر اعتراض ہے۔

عوامی نیشنل پارٹی کے غلام احمد بلور نے کہا کہ جب تک ذہنیت تبدیل نہیں ہوگی دہشت گردی کو شکست نہیں دی جاسکتی۔

غلام بلور نے کہا کہ 'اگر ہم دوسرے ملک کی خودمختاری کو نقصان پہنچائیں گے تو ایسا ہی ہوگا، فوجی عدالتیں مسئلے کا حل نہیں'۔

پاکستان مسلم لیگ (ضیاء) کے رکن اسمبلی اعجاز الحق نے کہا کہ اگر نیشنل ایکشن پلان پر اس کی روح کے مطابق عمل کیا جاتا تو فوجی عدالتوں کی بحالی کی ضروت باقی نہ رہتی، تمام سیاسی جماعتوں نے اس بل پر جمہوری طریقے سے بل کی منظوری دی۔

مزید پڑھیں: فوجی عدالتیں صرف نواز دور میں کیوں؟

وزیرخزانہ اسحٰق ڈار نے 28 ویں آئینی ترمیم کے بل پر بحث کو سمیٹتے ہوئے کہا کہ رواں برس 7 جنوری کو فوجی عدالتوں کی مدت ختم ہونے کے بعد حکومت نے تمام سیاسی جماعتوں کی مشاورت سے اس کی بحالی کا فیصلہ کیا۔

انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں پارلیمانی جماعتوں کے رہنماؤں کے 15 اجلاس ہوئے اور ٹیکنیکل کمیٹی کے پانچ اجلاس ہوئے۔

انہوں نے بتایا کہ اجلاسوں میں فوجی عدالتوں کو مزید دو سال کے لیے بحال کرنے پر اتفاق کیا گیا۔

وزیرخزانہ نے یہ بھی کہا کہ ایبٹ آباد واقعے کے بعد قائم کی گئی پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی کو بھی ایک قرار داد کے ذریعے بحال کیا جائے گا جو فوجی عدالتوں کی کارروائیوں کی نگرانی کرے گی۔

آرمی ایکٹ میں ترمیم کابل بھی منظور

فوٹو بشکریہ محمد بلال
فوٹو بشکریہ محمد بلال

قومی اسمبلی نے پاکستان آرمی ایکٹ 1952 میں ترمیم کے لیے 'پاکستان آرمی (ترمیمی) بل 2017' کثرت رائے سے منظور کرلیا۔

ریڈیو پاکستان کی رپورٹ کے مطابق وزیرقانون زاہد حامد نے آرمی ایکٹ میں ترمیم کا بل پیش کیا جس کی ایوان میں شق وار منظوری کے بعد کثرت رائے سے منظور کرلیا گیا۔

آرمی ایکٹ میں ترمیم کے بل پر اپوزیشن کی کی جانب سے پیش کی گئی تمام ترامیم مسترد کردی گئیں، ایم کیو ایم، جمعیت علمائے اسلام، جماعت اسلامی اور جمشید دستی نے ترامیم پیش کی تھیں۔

آرمی ایکٹ میں ترمیم کے بل پر بات کرتے ہوئے وزیرقانون زاہد حامد نے کہا کہ ملک کو درپیش موجودہ خطرات اور سلامتی کے چیلنجز کو مد ںظر رکھتے ہوئے 2015 میں 21 ویں آئینی ترمیم منظور کی گئی تھی جس میں دہشت گردی سے متعلق جرائم کے مقدمات پاکستان آرمی ایکٹ 1952 کے تحت چلانے کی اجازت دی گئی۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان آرمی ترمیمی ایکٹ 2015 میں بھی پاکستان آرمی ایکٹ 1952 میں بعض ضروری تبدیلیاں کی گئیں اور ان اقدامات کی وجہ سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مثبت نتائج سامنے آئے۔

مزید پڑھیں: پیپلز پارٹی کی 9 تجاویز پیش

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ آرمی ایکٹ ترمیمی بل 2017 کے ذریعے ان خصوصی اقدامات کو مزید دو سال کی توسیع دینے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔

خیال رہے کہ 16 مارچ 2017 کو فوجی عدالتوں کی مدت میں 2 سال کی توسیع کے لیے ملک کی تمام پارلیمانی جماعتوں کے درمیان اتفاق ہوگیا تھا۔

فوجی عدالتوں کی 2 سالہ خصوصی مدت رواں برس 7 جنوری کو ختم ہوگئی تھی، جس کے بعد فوجی عدالتوں کی دوبارہ بحالی سے پر سیاسی جماعتوں اور حکومت کے درمیان مذاکرات کا سلسلہ جاری تھا۔

فوجی عدالتوں کا قیام 16 دسمبر 2014 کو پشاور کے آرمی پبلک اسکول (اے پی ایس) پر حملے کے بعد آئین میں 21 ویں ترمیم کرکے عمل میں لایا گیا تھا۔


تبصرے (1) بند ہیں

Pathan Mar 22, 2017 09:12am
who were the four opposed?