جکارتہ: انڈونیشیا میں مسلم علومہ نے بچوں کی شادی کے خلاف سمیت کئی فتوے جاری کرکے مسلم اکثریتی ملک میں خواتین کی جانب سے مذہبی رہنمائی کی نادر مثال قائم کردی۔

مسلمانوں کی سب سے زیادہ آبادی والے ملک میں یہ فتوے مسلم علومہ کے تین روزہ اجتماع کے آخر میں جاری کیے گئے۔

غیر ملکی خبر رساں ایجنسی ’اے ایف پی‘ کے مطابق انڈونیشیا کے جزیرے ’جاوا‘ میں منعقد کیے گئے اس اجتماع میں، جو کہ دنیا بھر میں مسلم علومہ کا سب سے بڑا اجتماع تھا، سیکڑوں علومہ نے شرکت کی۔

اجتماع میں شرکت کرنے والی بیشتر علومہ کا تعلق انڈونیشیا سے ہی تھا، تاہم پاکستان، بھارت اور سعودی عرب سے تعلق رکھنے والی علومہ نے شرکت کی۔

اجتماع کے آخر میں کئی فتوے جاری کیے گئے، جن میں سب سے توجہ حاصل کرنے والا فتویٰ بچوں کی شادیوں سے متعلق تھا۔

یہ بھی پڑھیں: انڈونیشیا: جنگلات میں آگ لگانا 'حرام' قرار

اس فتوے کے ذریعے انڈونیشیا کی حکومت پر زور دیا گیا کہ وہ خواتین کی شادی کی کم سے کم عمر 16 سال سے بڑھا کر 18 سال کرے۔

اقوام متحدہ کی بچوں کے لیے کام کرنے والی ایجنسی ’یونیسف‘ 18 سال سے کم عمر بچوں کی شادیوں کی تعریف رسمی شادی یا غیر رسمی یونین کے طور پر کرتی ہے اور اس کا کہنا تھا کہ اس سے زیادہ تر خواتین متاثر ہوتی ہیں۔

یونیسف کے مطابق انڈونیشیا میں یہ مسئلہ دور دراز علاقوں تک پھیلا ہوا ہے۔ جہاں ہر چار میں سے ایک خاتون کی 18 سال سے کم عمر میں شادی کردی جاتی ہے۔

اجتماع میں شرکت کرنے والے انڈونیشیا کے وزیر مذہبی امور لقمان حکیم سیف الدین نے مشورہ دیا کہ ’انتظامیہ کو اس تجویز کا جائزہ لینا چاہیئے اور میں اس سفارز کو حکومت کے پاس لے کر جاؤں گا۔‘

اجتماع کے آخر میں جاری کیے گئے دیگر فتوؤں میں خواتین کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے اور جنگلات کے خاتمے کے باعث ہونے والی ماحولیاتی تباہی کے خلاف فتوے شامل ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں