کیمیائی ہتھیاروں کی ممانعت کی تنظیم (او پی سی ڈبلیو) کے چیف کا کہنا ہے کہ عالمی نگرانی ماہرین کی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق گذشتہ ایک سال کے دوران شام میں 45 مرتبہ کیمیائی ہتھیار استعمال کیے گئے۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق آرگنائزیشن فار پروہیبٹیشن آف کیمیکل ویپن یا کیمیائی ہتھیاروں کی ممانعت کی تنظیم (او پی سی) ڈبلیو کے ڈائریکٹر جنرل احمت اوزومسو کا کہنا تھا کہ ان کی تنظیم کی جانب سے کی جانے والی تحقیقات کے مطابق اس علاقے میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کی ایک طویل فہرست موجود ہے۔

انھوں نے میڈیا کے نمائندوں کو بتایا کہ سال 2ٓ016 کے دوسرے حصے میں 30 واقعات اور رواں سال کے آغاز سے اب تک 15 ایسے واقعات سامنے آچکے ہیں اور ان کی مجموعی تعداد 45 ہے۔

ان واقعات میں رواں سال 4 اپریل میں شام کے شمال مغربی حصے میں واقع باغیوں کے زیر کنٹرول علاقے میں جنگی جہازوں کے ذریعے کیے گئے مبینہ مہلک گیس کا حملہ بھی شامل ہے جس کے نتیجے میں 31 بچوں سمیت 88 کے قریب افراد ہلاک ہوگئے تھے۔

مزید پڑھیں: شام میں کیمیائی حملہ، روس کے ملوث ہونے کی تحقیقات

او پی سی ڈبلیو کے مطابق یہ تمام الزامات ہمارے ماہرین کی جانب سے ریکارڈ کیے گئے ہیں، جو روزانہ کی بنیادوں پر ہمارے آپریشن سینٹر سے مانیٹر ہورہے ہیں۔

تنظیم نے حال ہی میں اس بات کو یقینی بنانے کیلئے اقدامات اٹھائے ہیں کہ متاثرہ علاقوں میں اپنی ٹیم کے اراکین کی بحفاظت تعیناتی کی جاسکے تاکہ اس حوالے سے مزید تحقیقات کی جاسکیں.

تنظیم کے ڈائریکٹر جنرل کا کہنا تھا کہ متاثرین سے حاصل کیے جانے والے نمونوں کی جانچ سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ مہلک گیس اور اس سے مماثل چیز کا استعمال کیا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'شام میں قائم صدر بشار السد کی حکومت پہلے ہی کہہ چکی ہے کہ وہ اس مشن کی حمایت کرے گی دراصل انھوں نے ہمیں دمشق کے ذریعے جانے کیلئے پیش کش کی ہے'۔

انھوں نے بتایا کہ 'یہاں یہ مسئلہ درپیش ہے کہ مذکورہ علاقے مختلف مخالف گروپوں کے قبضے میں ہیں اس لیے ہمیں ان سے ایک معاہدہ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ عارضی جنگ بندی کو یقینی بنایا جاسکے، جو ہم جانتے ہیں کہ شام کی حکومت بھی چاہتی ہے'۔

خیال رہے کہ رواں ماہ کے آغاز میں شام کے شمال مغربی حصے میں واقع باغیوں کے زیر کنٹرول علاقے میں جنگی جہازوں کے ذریعے کیے گئے مبینہ مہلک گیس حملے میں متعدد بچوں سمیت 88 کے قریب افراد ہلاک ہوگئے تھے۔

جس کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حکم پر شامی حکومت کے خلاف داغے گئے 59 ٹام ہاک کروز میزائلوں کے نتیجے میں 4 فوجی ہلاک جبکہ شامی ایئربیس مکمل طور پر تباہ ہوگیا تھا۔

واضح رہے کہ یہ وہی ایئربیس ہے، جہاں سے 4 اپریل کو شامی شہریوں پر مہلک گیس سے حملہ کیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: ٹرمپ حکومت کا شام پر پہلا حملہ

شام کی مبصر تنظیم کا کہنا تھا کہ ’میزائل حملے میں الشعیرات ایئربیس کا رن وے، ایندھن کے ٹینکس اور فضائی دفاعی نظام ٹکڑے ٹکڑے ہوکر بکھر گیا‘۔

تنظیم کے سربراہ رمی عبدالرحمٰن کے مطابق ایئربیس پر سکھوئی 22، سکھوئی 24 اور ایم آئی جی 23 لڑاکا طیارے موجود تھے ، جبکہ افسران کا کوارٹر بھی مکمل تباہ ہوگیا۔

وائٹ ہاؤس حکام کا کہنا تھا میزائل یو ایس ایس پورٹر اور یو ایس ایس روس کے ذریعے داغے گئے جو امریکی بحریہ کے چھٹے بیڑے کا حصہ ہیں۔

اس حملے کے حوالے سے ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ’اس بات میں کوئی شک نہیں کہ شام نے ممنوعہ کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کیا، امریکا کی قومی سلامتی کے مفاد کے لیے ضروری ہے کہ مہلک کیمیائی ہتھیاروں کے پھیلاؤ اور استعمال کو روکا جائے‘۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں