• KHI: Partly Cloudy 27°C
  • LHR: Partly Cloudy 21.9°C
  • ISB: Partly Cloudy 19.8°C
  • KHI: Partly Cloudy 27°C
  • LHR: Partly Cloudy 21.9°C
  • ISB: Partly Cloudy 19.8°C

رینجرز ہے تو کیا پولیس کی ضرورت نہیں؟

شائع May 3, 2017 اپ ڈیٹ May 4, 2017
لکھاری سابق پولیس افسر ہیں۔
لکھاری سابق پولیس افسر ہیں۔

حال ہی میں سندھ کابینہ نے انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کی شق 4 اور 5 کے تحت کراچی ڈویژن میں رینجرز کے خصوصی پولیسنگ اختیارات میں 90 روز کی توسیع کی ہے۔ اگرچہ ان کے پولیسنگ عمل کے حوالے سے بڑی سطح پر احتساب کے مطالبے کیے جا رپے ہیں مگر اعلی سیاسی نمائندوں، تاجر برداری اور خصوصی طور پر عام شہریوں نے رینجرز آپریشنز کو سراہا ہے۔

دہشت گردی کی کوئی سرحد نہیں ہوتی جبکہ اس کا مؤثر انداز میں مقابلہ تنہا صوبائی سطح پر نہیں کیا جاسکتا۔ یوں انسداد دہشت گردی کے حوالے سے حکمت عملی میں وفاقی حکومت کا کردار نمایاں بن جاتا ہے۔ انسداد دہشت گردی بنیادی طور پر ایک وفاقی موضوع رہا ہے جبکہ اس حوالے سے ہمارے پاس انسداد دہشت گردی ایکٹ بھی موجود ہے جو ایک وفاقی قانون ہے، جس میں پورے پاکستان میں انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں کا قانونی فریم ورک موجود ہے۔

پولیسنگ ابتداء سے ہی مکمل طور پر ایک سیاسی عمل ہے — کھل کر کہیں تو تمام تر تعلقات جن میں طاقت کا عنصر موجود ہے وہ سیاسی ہیں۔ اسی طرح رینجرز کی پولیسنگ اور تعیناتی کے حوالے سے، ان کے کام کرنے کے مینڈیٹ، وسعت اور مدت پر، جس طرح سندھ میں دیکھا گیا، وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان ایک تکرار کا باعث بنا رہا۔ دو سیاسی جماعتیں ہونے سے — ایک وفاقی حکومت کو چلا رہی ہے، دوسری سندھ کو — جن کے مختلف نکتہ نظر، ترجیحات اور صوبے میں مختلف سیاسی حیثیت، رینجرز آپریشنز کے حوالے سے فیصلہ سازی پیچیدہ بنا دیتی ہے۔

پولیسنگ ایک صوبائی موضوع ہے اور صوبے میں رینجرز آپریشنز کے حوالے سے صوبائی حکومت کا کردار مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ ہندوستان میں نیم عسکری ادارے سینٹرل آرمڈ پولیس فورسز کی سربراہی پولیس افسران کرتے ہیں۔ پاکستان میں، نیم عسکری اداروں، ماسوائے فرنٹیئر کانسٹبیلری، کی سربراہی فوجی افسران کرتے ہیں۔ مسلح افواج کے افسران، یہاں تک کہ نیم عسکری اداروں میں کام کرنے والے بھی، وفاقی یا صوبائی حکومتوں سے زیادہ اپنے بالا ادارے، فوج، کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ اس حقیقت کے باوجود کہ رینجرز اپنے کام قانون کے مطابق وفاقی اور صوبائی حکومت کی ہدایات اور ان کی ماتحت ہو کر سر انجام دے رہی ہے، پھر بھی کبھی کبھار حکومت سے زیادہ پاک فوج کے ادارہ تعلقات عامہ رینجرز آپریشنز کی اہمیت کے بارے میں پریس ریلیز جاری کرتا ہے۔ معلومات وفاقی یا صوبائی حکومتوں کے ترجمان کی جانب سے جاری کی جانی چاہیے، نہ کہ فوج کے میڈیا ادارے کی جانب سے۔

جس طرح سندھ میں دیکھا گیا اور اب تو پنجاب میں بھی دیکھا گیا کہ نیم عسکری اداروں کے مینڈیٹ اور کام کرنے کے طریقے کے حوالے سے صوبائی حکومتوں اور رینجرز کے نکتہ نظر ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ اس کے بعد، آپریشن کی سطح پر، کمانڈ کے مختلف ڈھانچوں، تربیت کے طریقہ کار، مختلف حالات اور صورتحال میں کام کرنے کے مسائل کی وجہ سے پولیس اور رینجرز کے درمیان تال میل کے مسائل بھی پیش آتے ہیں۔

لہٰذا رینجرز کی تعیناتی کے حوالے سے نکتہ نظر، ترجیحات اور طریقہ کار پر اختلاف رائے کو تین سطحوں میں دیکھا جاسکتا ہے — 1) پہلا اختلاف مرکز اور صوبائی حکومت کے درمیان، 2) صوبائی حکومت اور رینجرز کے درمیان اور 3) پولیس اور رینجرز کے درمیان۔

ان مسائل کے باوجود، ملک میں سیکیورٹی کی صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے، خاص طور پر مقابلے کے دوران جب مقامی پولیس یونٹس کو مزید افرادی قوت مطلوب ہو تب ہمیں نیم عسکری اداروں کی مدد کی ضرورت پڑتی ہے۔

مگر پولیسنگ کے لیے نیم عسکری اداروں پر بڑھتا ہوا انحصار بھی پریشان کن ہے۔ ہم نے کراچی میں 1989 سے رینجرز کو تعینات ہوتے دیکھا ہے۔ بلوچستان 90 فیصد حصے پر بھی نیم عسکری ادارے ہی پولیسنگ کر رہے ہیں۔ رینجرز کو اب پنجاب میں سرحدی اضلاع (اٹک، ڈی جی خان، راجن پور) اور لاہور میں بھی تعینات کیا گیا ہے۔

پولیسنگ کرنا ایک مقامی کام ہے؛ مؤثر پولیسنگ کا دارومدار مقامی سطح پر ملنے والی حمایت پر ہوتا ہے۔ نیم عسکری اداروں کے ذریعے پولیسنگ مقامی پولیس کی ناکامی یا مقامی پولیس یونٹس پر اعتماد کی کمی یا پھر دونوں کو ظاہر کرتی ہے۔ مزید مختصر کہیں تو، پولیس کی استعداد نہ بڑھانے اور لوگوں کا پولیس پر اعتماد بحال نہ کر پانے کی یہ صوبائی حکومتوں کی ناکامی ہے۔

’پاکستان میں طرز حکمرانی کے معیار پر رائے عامہ 2016‘ کے عنوان سے پلڈاٹ کی ایک تحقیق کے مطابق خیبر پختونخوا کے 75 فیصد تحقیق میں حصہ لینے والوں کو مختلف سطح پر پولیس اداروں پر اعتماد تھا، 51 فیصد پنجاب میں اور صرف 29 فیصد سندھ میں یہ صورتحال سامنے آئی۔ سندھ میں 75 فیصد نے کہا کہ ہم پولیس پر ’قطعی طور پر اعتماد’ نہیں کرتے۔ اپنے صوبے کے شہریوں کا اعتماد حاصل ہونے کے تناظر میں خیبر پختونخوا سب سے آگے ہے جبکہ پنجاب اب بھی سندھ سے کافی بہتر کارکردگی پیش کر رہا ہے۔ سندھ کے لوگوں کا اپنی پولیس فورس پر اعتماد کی کمی کافی واضح ہے۔

اسی طرح، ’پاکستان سوشل اینڈ لیونگ اسٹینڈرڈز میئرمینٹ’ سروے کے مطابق، جہاں 2012 اور 2013 میں خیبر پختونخوا میں پولیس سے مطمئن افراد کی شرح 55.43 فیصد تھی، پنجاب میں 50.21 فیصد تھی اور سندھ میں 38.13 تھی، وہاؐں 2014 اور 2015 میں خیبر پختونخوا میں یہ شرح بڑھ کر 65.79 ہو گئی، سندھ میں شرح گھٹ کر 35.14 فیصد ہو گئی جبکہ پنجاب میں یہ شرح 50 فیصد کے آس پاس ہی رہی۔

دونوں تحقیقوں سے پتہ چلتا ہے کہ سندھ کے لوگوں کا اپنی پولیس پر بھروسہ خیبر پختونخوا یا پنجاب کے رہائشیوں کے مقابلے میں نمایاں طور پر کم ہے۔ کراچی میں رینجرز کی قریب نہ ختم ہونے والی تعیناتی کے پیچھے ایک اہم وضاحت یہ بھی ہے۔

پولیس کو مستحکم بنانا صوبوں کی اولین ترجیحات میں سے ایک ہونی چاہیے جبکہ کراچی اور بلوچستان کی طرح نیم عسکری اداروں کی تعیناتی کی توسیع، اور پنجاب میں حالیہ تعیناتی، سے صوبوں کو اپنے اپنے پولیس اداروں کی صلاحیت بڑھانے کی ضرورت کو فراموش نہیں کرنا چاہیے۔ اس کے ساتھ، انسداد دہشت گردی آپریشنز میں شفافیت اور غیر جانبداری کے الزامات کا مقابلہ کرنے اور اپنے اندر عوام کا اعتماد بہتر بنانے کے لیے پولیس کو خود مختاری کے ساتھ کام کرنے دینا بھی نہایت ضروری ہوگا۔

سندھ کی کابینہ نے جرم اور شدت پسندی سے نمٹنے کے لیے پولیس کی صلاحیت کو بہتر کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ یہ حوصلہ بخش بات تو ہے مگر یہاں قول سے زیادہ فعل اہمیت رکھتا ہے۔

امریکا اور یورپ سمیت پوری دنیا میں آوازیں بلند ہو رہی ہیں، جن میں تمام پولیس یونٹس کو وفاقی حیثیت دینے کے مطالبے کیے جا رہے ہیں تا کہ دہشت گردی کا مزید مؤثر انداز میں مقابلہ کیا جا سکے۔ اس تناظر میں، وفاقی حکومت کا کردار مزید اہم بن جاتا ہے۔ پورے پاکستان میں پولیس یونٹس کی تربیت اور آلات کو معیاری بنانا، تمام صوبائی سرحدوں پر مربوط اور سہولت کار آپریشنز، اور پاکستان میں پولیس کی پیشہ وارانہ ترقی کا جائزہ لینا بہت ضروری ہے۔

بین الاقوامی سطح کے بہترین مثالوں کو مد نظر رکھتے ہوئے، انسداد دہشتگردی اور انسداد شدت پسندی پولیسنگ کے لیے جس ایک بنیادی اصول کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ: بنیادی ذمہ داری وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے سیاسی اعلیٰ نمائندوں کے کندھوں پر ہے؛ پولیس کو مناسب حد تک کام کرنے کی آزادی کے ساتھ صف اول کی سربراہ ایجنسی بننے کی ضرورت ہے؛ انٹیلی جنس اداروں اور نیم عسکری اداروں کے یونٹس کو سیاسی سربراہان کی پالیسی کے مطابق کام کرنا چاہیے جبکہ پولیس کو انٹیلجنس معلومات اکٹھا کرنے اور کمبیٹ سپورٹ آپریشنز میں بھی مدد فراہم کرنی چاہیے۔

یہ مضمون 2 مئی 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔


انگلش میں پڑھیں۔

محمد علی نیکوکارا

لکھاری سابق پولیس افسر ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

کارٹون

کارٹون : 14 دسمبر 2025
کارٹون : 13 دسمبر 2025