چمن: بلوچستان کے شہر چمن کے علاقوں کلی لقمان اور کلی جہانگیر میں افغان فورسز کی فائرنگ کے نتیجے میں دوسیکیورٹی اہلکاروں سمیت 12 افراد جاں جبکہ 40 زخمی ہوگئے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جاں بحق ہونے والوں میں پاک فوج اور فرنٹیئر کور کا ایک ایک سپاہی جبکہ 10 عام شہری شامل ہیں۔

چمن کے سول ہسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ (ایم ایس) ڈاکٹر اختر نے بتایا کہ جاں بحق ہونے والوں میں 5 بچے اور 3 خواتین شامل ہیں، پولیس نے تصدیق کی کہ زخمیوں میں 4 ایف سی اہلکار بھی شامل تھے۔

ڈاکٹر اختر نے بتایا کہ 5 شدید زخمیوں کو فوری طور پر کوئٹہ کے سول ہسپتال منتقل کر دیا گیا تھا۔

قبل ازیں ڈسٹرکٹ پولیس افسر (ڈی پی او) قلعہ عبداللہ ساجد مہمند نے جاں بحق اور زخمی افراد کی تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ تمام متاثرہ افراد کا تعلق چمن کے علاقوں کلی لقمان اور کلی جہانگیر سے تھا۔

چمن سول ہسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر اختر کے مطابق ، ’پانچ شدید زخمیوں کو بہتر طبی سہولیات کی فراہمی کے لیے کوئٹہ روانہ کیا جاچکا ہے‘۔

اس سے قبل پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) نے فائرنگ کے نتیجے میں ایک شہری کے جاں بحق جبکہ 4 ایف سی اہلکاروں سمیت 18 افراد کے زخمی ہونے کی تصدیق کی تھی۔

آئی ایس پی آر کے جاری کردہ بیان کے مطابق افغان بارڈر پولیس نے مردم شماری ٹیم کی سیکیورٹی پر مامور ایف سی بلوچستان کے اہلکاروں کو فائرنگ کا نشانہ بنایا۔

پریس ریلیز میں کہا گیا کہ 30 اپریل سے افغانستان کی سرحدی پولیس کلی لقمان اور کلی جہانگیر کے علاقوں میں پاکستانی سرحد کی جانب جاری مردم شماری کے عمل میں رکاوٹیں کھڑی کررہی ہے۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ ’افغان انتظامیہ کو پیشگی اطلاع جبکہ مردم شماری کا عمل یقینی بنانے کے لیے سفارتی اور فوجی سطح پر تعاون اور روابط کے باجود بھی افغانستان کی جانب سے رکاوٹیں کھڑی کرنے کا سلسلہ جاری ہے’۔

خیال رہے کہ ملک بھر میں چھٹی مردم شماری کے پہلے مرحلے کا آغاز 15 مارچ سے ہوا تھا، جو 15 اپریل تک جاری رہا، اب 25 اپریل سے مردم شماری کے دوسرے مرحلے کا آغاز ہوا ہے، جو 25 مئی تک جاری رہے گا۔

یہ بھی پڑھیں: افغان سفارتی حکام جی ایچ کیو طلب، 76 دہشت گردوں کی فہرست حوالے

ملک میں مردم وخانہ شماری کے عمل کو یقینی بنانے کے لیے شمار کنندہ عملے میں مختلف محکموں کے 1 لاکھ 18 ہزار افراد کو شامل کیا گیا ہے، جبکہ متعلقہ اضلاع میں 1 لاکھ 75 ہزار فوجی اہلکاروں کو بھی تعینات کیا گیا، جو شمار کرنے کے ساتھ ساتھ سروے کرنے والے عملے کو سیکیورٹی بھی فراہم کررہے ہیں۔

اسٹیشن ہاؤس افسر (ایس ایچ او) چمن مقصود کے مطابق افغانستان سے ہونے والے حملے کے دوران پاکستانی گاؤں میں واقع گھروں پر گولے گرنے کے نتیجے میں بچوں اور خواتین سمیت متعدد افراد زخمی ہوئے.

کلی جہانگیر کے رہائشی اور حملے میں زخمی ہونے والے حاجی ایوب نے بتایا کہ ’ہم سو رہے تھے کہ اچانک ہی فائرنگ اور دھماکوں کی آوازیں سنائی دینے لگیں، جس کے فوراْ بعد ہم گھر سے نکل کر چمن بازار کی جانب روانہ ہوئے‘۔

کلی لقمان کے رہائشی عبدالمتین کے مطابق افغان فورسز نے یہ حملہ اس وقت کیا جب ایف سی اہلکار علاقے میں آنے والی مردم شماری کی ٹیم کی سیکیورٹی کے فرائض سرانجام دے رہے تھے۔

عبدالمتین نے بتایا کہ ’میرا ایک قریبی رشتے دار بھی حملے کا نشانہ بنا‘۔

مزید پڑھیں: پاکستان میں دہشت گردی: ’افغانستان میں موجود کالعدم تنظیم ملوث‘

حملوں کے بعد علاقے کے تمام کاروباری مراکز ، بازار اور دکانیں بند کر دی گئیں، جبکہ کلی لقمان، کلی جہانگیر، بادشاہ اڈہ کاہول سے مکینوں نے نقل مکانی بھی شروع کر دی۔

رپورٹس کے مطابق افغان فورسز کے حملوں کے بعد سرحد پر سیکیورٹی سخت کر دی گئی جبکہ تازہ دم دستے بھی بارڈر کے ساتھ کے علاقوں میں تعینات کرنے کے لیے روانہ کیے گئے۔

’پاکستان جوابی کارروائی کا حق رکھتا ہے‘

ترجمان دفتر خارجہ نفیس زکریا نے اسلام آباد میں اپنی ہفتہ وار پریس بریفنگ کے دوران چمن باڈر پر افغان فورسز کی جانب سے کی گئی فائرنگ پر شدید تشویش کا اظہار کیا۔

نفیس زکریا کا کہنا تھا کہ ’مردم شماری ٹیم پاکستانی علاقے میں اپنے فرائض سرانجام دے رہی تھی، جبکہ مردم شماری کے حوالے سے افغانستان کو پہلے سے آگاہ کردیا گیا تھا‘۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ افغان فورسز کے اس حملے کے بعد ’پاکستان جوابی کارروائی کا حق رکھتا ہے‘۔

پارلیمانی وفد کے حالیہ دورہ افغانستان کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ پاکستان کے وفد نے افغانستان کے دورے میں اپنا موقف واضح کیا تھا، ’پاکستان واضح کرچکا ہے کہ وہ افغانستان کے ساتھ پرامن تعلقات رکھنا چاہتا ہے اور افغانستان میں امن اور اعتدال دیکھنا چاہتا ہے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارے نزدیک افغانستان میں قیام امن کا واحد راستہ سیاسی طور پر بات چیت ہے‘۔

باب دوستی بند

حملے کے بعد پاک افغان سرحد پر موجود 'باب دوستی' کو ہر قسم کی آمد ورفت کے لیے بند کر دیا گیا۔

علاوہ ازیں سیکیورٹی فورسز نے حملے سے متاثرہ علاقوں کے مکینوں کو گاؤں خالی کرنے کی ہدایات بھی جاری کردیں۔

افغان ناظم الامور کی دفتر خارجہ طلبی

چمن بارڈر پر افغان فورسز کی فائرنگ پر افغان ناظم الامور کو دفتر خارجہ طلب کرکے سخت احتجاج کیا گیا۔

دفتر خارجہ سے جاری بیان کے مطابق پاکستان نے چمن بارڈر پر افغان فورسز کی بلااشتعال فائرنگ پر سخت احتجاج کیا اور افغان ناظم الامور عبدالناصر یوسفی کو احتجاجی مراسلہ دیا گیا۔

بیان میں کہا گیا کہ افغان فورسز کی فائرنگ سے قیمتی جانوں کا ضیاع ہوا حالانکہ مردم شماری کرنے والی ٹیموں کے بارے میں افغان حکومت کو پہلے ہی مطلع کردیا تھا، جبکہ بلااشتعال فائرنگ سے سرحدی علاقے میں مردم شماری کے عمل کو بھی نقصان پہنچا۔

پاکستان کی جانب سے مطالبہ کیا گیا کہ افغانستان فائرنگ کا یہ سلسلہ فوری طور پر ختم کرے اور سرحد کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے۔

پاک ۔ افغان ڈی جی ایم اوز کا ہاٹ لائن رابطہ

آئی ایس پی آر کے مطابق پاکستان اور افغانستان کے ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز (ڈی جی ایم اوز) کا ہاٹ لائن پر رابطہ ہوا۔

پاک فوج کے ڈی جی ملٹری آپریشنز میجر جنرل ساحر شمشاد مرزا نے چمن میں بلااشتعال فائرنگ کی مذمت کرتے ہوئے اپنے افغان ہم منصب کو بتایا کہ سرحد کے دونوں اطراف گاؤں واقع ہیں لیکن پاکستانی فورسز اور شہری اپنے سرحدی علاقے میں ہی موجود ہیں۔

افغان ڈی جی ایم او نے تسلیم کیا کہ پاک ۔ افغان سرحد گاؤں کے درمیان ہونے کی وجہ سے حدود کا اندازاہ لگانا مشکل ہے۔

میجر جنرل ساحر شمشاد مرزا نے افغان ڈی جی ایم او کو بارڈر پولیس کو افغان حدود میں رکھنے کا انتباہ کرتے ہوئے کہا کہ کشیدگی میں کمی کے لیے افغان فورسز کو اپنی حدود میں رہنا چاہیئے۔

ہاٹ لائن رابطے میں افغانستان کے ڈی جی ایم او نے معاملے کو اعلیٰ سطح پر اٹھانے اور اس حوالے سے ضروری احکامات جاری کرنے پر رضامندی ظاہر کی۔

افغان فورسز کی طورخم بارڈر پر بھی فائرنگ

افغان فورسز نے چمن کے بعد طورخم بارڈر پر بھی پاکستانی علاقے میں فائرنگ کی۔

ڈان نیوز کے مطابق عسکری ذرائع کا کہنا تھا کہ خیبر ایجنسی کے طورخم بارڈر کے قریب افغان فورسز کی جانب سے اقبال پوسٹ اور پوسٹ ٹو پر فائرنگ کی گئی۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ افغان فورسز کی فائرنگ کے جواب میں پاکستانی سیکیورٹی فورسز کی جانب سے بھی فائرنگ کی گئی۔

واقعے کے بعد پالیٹیکل انتظامیہ نے طورخم میں غیر معینہ مدت تک کے لیے کرفیو نافذ کردیا.

تاہم اسسٹنٹ پالیٹیکل ایجنٹ نیاز محمد کا کہنا ہے کہ طورخم میں تمام معاملات معمول کے مطابق ہوں گے اور طورخم گیٹ پر آمد و رفت بھی معمول کے مطابق جاری رہے گی۔

پاک-افغان کشیدگی

خیال رہے کہ ملک کی سیاسی و عسکری قیادت ملک میں دہشت گردی کی حالیہ لہر میں افغانستان سے آنے والے دہشت گردوں اور وہاں موجود ان کی قیادت کو ملوث قرار دے چکی ہے.

رواں سال فروری میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی خبردار کیا تھا کہ دہشت گرد ایک بار پھر افغانستان میں منظم ہورہے ہیں اور وہاں سے پاکستان میں عدم استحکام پیدا کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔

یہ بھی یاد رہے کہ رواں سال کے آغاز میں ملک کے مختلف علاقوں میں یکے بعد دیگرے ہونے والے دہشت گردی کے واقعات کے بعد چمن اور طورخم کے مقام پر پاک-افغان سرحد کو پاک فوج نے سیکیورٹی خدشات کے باعث 16 فروری کو غیر معینہ مدت کے لیے بند کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

تاہم ایک ماہ بعد وزیراعظم نواز شریف نے جذبہ خیر سگالی کے تحت سرحد کو کھولنے کے احکامات جاری کردیئے تھے۔

دوسری جانب کابل افغانستان میں ہونے والی دہشت گردی اور طالبان کے حملوں کا ذمہ دار اسلام آباد کی پالیسی کو قرار دیتا ہے، گذشتہ ماہ افغان دارالحکومت میں ہونے والے حملوں میں بھی 100 سے زائد فوجی مارے گئے تھے۔

تبصرے (0) بند ہیں