صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی کو بجلی فراہم کرنے والے ادارے کے الیکٹرک کا کہنا ہے کہ غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ میں اضافے کی اصل وجہ گیس پریشر میں کمی ہے۔

گذشتہ دو روز کے دوران کراچی کے مختلف علاقوں میں غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ میں اضافہ ہوا ہے۔

خیال رہے کہ کے الیکٹرک نے سرکاری ادارے سوئی سدرن گیس کی جانب سے کی گئی ٹوئٹ کے بعد ایک پریس ریلیز میں لوڈشیڈنگ میں اضافے کا ذمہ دار گیس پریشر کی کمی کو قرار دیا، سوئی سدرن کا کہنا تھا کہ گیس کے پریشر میں کمی کی وجہ سے جمعرات تک گیس کی سپلائی معطل رہے گی۔

جس کے بعد کے الیکٹرک نے شہر میں گذشتہ دو روز سے جاری لوڈ شیڈنگ کا ذمہ دار گیس پریشر کو قرار دیتے ہوئے کہا کہ 'گیس پریشر میں کمی اور کمپنی کا کم سے کم ایک یونٹ ٹرپ ہونے کی وجہ سے شہر کے مختلف علاقوں میں بجلی کی فراہمی میں دشواری کا سامنا ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'لوڈ شیڈنگ کو تقسیم کرنے کے باعث شہر کے مخصوص علاقوں میں بجلی کی فراہمی متاثر ہورہی ہے'۔

کمپنی کے اس دعوے پر سماجی رابطے کی سائٹ ٹوئٹر پر ایک شہری نے تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ' ہم گذشتہ دو روز سے بدترین لوڈشیڈنگ کا سامنا کیوں کررہے ہیں، کیا اس پورے شہر میں برابر تقسیم نہیں کیا جاسکتا'۔

جس کے جواب میں کے الیکٹرک کا کہنا تھا کہ لوڈ شیڈنگ کے ذریعے ہی شہر میں بجلی کی کمی کو تقسیم کیا جارہا ہے۔

ایک شہری نے لوڈشیڈنگ کے شیڈیول کے حوالے سے دریافت کیا جس کے جواب میں کے الیکٹرک کا کہنا تھا کہ 'یہ شیڈیول عارضی طور پر نظام کی مناسبت سے بنایا جاتا ہے'۔

تاہم شہریوں کی جانب سے لوڈ شیڈنگ شیڈیول کے حوالے سے متعدد مرتبہ سوال اٹھانے پر کمپنی نے کہا کہ 'لوڈشیڈنگ کا دورانیہ شیئر نہیں کیا جاسکتا'۔

خیال رہے کہ گذشتہ ماہ وزیراعظم نواز شریف نے بجلی کی وزارت کو اپریل میں 13 سے 14 گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ پر قابو پانے اور آنے والے ماہ رمضان کے لیے تیاری کی ہدایت دی تھی۔

وزیراعظم نے کابینہ کمیٹی کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے بجلی کی فراہمی میں تعطلی کا باعث بننے والی رکاوٹوں کو ختم کرنے کاحکم دیا جبکہ پانی و بجلی کے سابق سیکریٹری یونس ڈھاگا نے خزانہ اور بجلی کے اعلیٰ حکام کی عدم موجودگی پر تنقید کی۔

وزیراعظم اس اجلاس میں مسلسل پوچھتے رہے کہ اپریل میں 13 سے 14 گھنٹوں کی لوڈ شیڈنگ کیوں کی جارہی ہے جبکہ سیکریٹری نے یقین دلایا کہ لوڈشیڈنگ کم کرکے 3 سے 4 گھنٹے سے زیادہ نہیں کی جائے گی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں