گزشتہ سال 12 دسمبر کی ایک ٹھنڈی اور خنک شام میں اسٹیٹ بینک کے زیرِ اہتمام زاہد حسین میموریل لیکچر کا انعقاد کیا گیا تھا۔ اُن دنوں میں 16 دسمبر، یومِ سقوط ڈھاکہ کے لیے اپنی ایک تحقیقی رپورٹ بنانے میں مصروف تھا۔

اسٹیٹ بینک کے ترجمان زاہد قمر صاحب کی دعوت پر لیکچر میں شرکت کی۔ لیکچر کا عنوان تھا، 'بلند معاشی نمو کی فراہمی میں ریاستی صلاحیتیں' (State Capabilities on delivering Higher Economic Growth)۔

لیکچر دینے کے لیے پروفیسر ٹموتھی جون بیسلی کو برطانیہ سے خصوصی طور پر مدعو کیا گیا تھا۔ لیکچر ہال میں اسٹیٹ بینک کے اعلیٰ افسران کے علاوہ معاشی ماہرین اور بیوروکریسی کے افراد بھی بڑی تعداد میں موجود تھے۔ اِس لیکچر میں پروفیسر ٹموتھی جون بیسلی نے 'ایگزیکٹو اتھارٹی کی محدودیت اور ریاست کی صلاحیت' پر اپنا مقالہ پیش کیا۔

پروفیسر ٹموتھی جون بیسلی کے مطابق ایگزیکٹو اتھارٹی میں کمی یا محدودیت کا مطلب یہ نہیں کہ ریاست کو کمزور کیا جائے بلکہ فیصلہ سازی کو وسیع البنیاد کیا جائے۔ کسی فرد یا گروہ کو کُل کا مالک بننے سے روکا جائے۔

گوکہ اپنے مقالے کے دوران پروفیسر ٹموتھی جون بیسلی کا کہنا تھا کہ وہ پاکستان کے نظام کے بارے میں زیادہ نہیں جانتے، مگر وہ اِس حوالے سے زیادہ رائے گردانی سے گریز کرتے ہوئے جدید ریاستی ماحول میں اپنی تھیوری پیش کریں گے۔ لیکن پروفیسر ٹموتھی کے لیکچر کے نکات کو پاکستانی ریاست کے حالیہ تبدیل ہونے والے حالات کے آگے رکھ کر پرکھا جاسکتا ہے، اِس حوالے سے یہ تحریر ایک ادنیٰ سی کوشش ہے۔

پروفیسر ٹموتھی جون بیسلی نے ریاست اور ترقی کے موضوع پر اپنی تحقیق اور دیگر محققین کی تھیوریز اور اُن سے اخذ کردہ نتائج سے حاضرین کو آگاہ کرتے ہوئے یہ تھیوری پیش کی کہ اگر ریاست میں ایگزیکٹو کے اختیارات کو کم سے کم کیا جائے اور اُس پر مؤثر نگرانی کا نظام قائم کیا جائے تو بہتر اور مستحکم معاشی ترقی حاصل کی جا سکتی ہے اور ریاست زیادہ سے زیادہ ٹیکس بھی جمع کرسکتی ہے۔

پروفیسر ٹموتھی کا کہنا ہے کہ جدید ریاست میں ایگزیکیٹو اتھارٹی (فردِ واحد کے اختیار) کو کم کرنے سے اور اُس پر پارلیمنٹ، عدلیہ، خود مختار اداروں، سول سوسائٹی اور ذرائع ابلاغ کی نگرانی، نظام پر عمومی طور پر عوام اور خصوصی طور پر سرمایہ کاروں کے اعتماد میں اضافہ کرتی ہے۔ سرمایہ کاری میں اضافے سے ریاستی حدود میں معاشی ترقی بہتر ہوتی ہے، جس سے حکومت کے ٹیکسوں میں اضافہ ہوتا ہے جو کہ ریاست کی صلاحیتوں میں اضافے کے لیے بھی اہم ہے۔

پروفیسر ٹموتھی کے مطابق برطانیہ جیسے ملک کو ایگزیکٹیو اتھارٹی کی محدودیت کی موجودہ صورتحال پر پہنچنے کے لیے کئی صدیاں لگی ہیں۔ اِس کے لیے برطانیہ کو خانہ جنگی کا سامنا بھی کرنا پڑا اور ایک بادشاہ کو جان بھی دینی پڑی۔

پاکستان اور اِن دنوں ریاست کے خدوخال، ریاست میں موجود ایگزیکیٹو اتھارٹی کی حدود و قیود اور حکومت پر نگرانی کے لیے آزاد ادارے، سول سوسائٹی یا ذرائع ابلاغ تیزی سے فروغ اور نمو پا رہے ہیں۔ اِن میں سے ہر ادارے پر تنقید اور توصیف کا سامنا ہے۔ مگر یہ بات طے ہے کہ پاکستان میں ریاستی نظام جدید ریاستی اقدار کی جانب گامزن ہے۔ حکومت کی جانب سے اختیارات کو استعمال کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو ریاستی ادارے اپنی قانونی حیثیت میں یا آزاد ادارے اپنی تنقید کے ذریعے حکومتی اختیارات کے بے جا استعمال کو روکتے ہیں، جن میں ریاست کے مالی اور تشدد کرنے کا اختیار بھی شامل ہے۔ ریاست کے تشدد کو محدود کرنے پر آگے چل کر بات کی جائے گی۔

حال ہی میں ہم نے دیکھا ہے کہ کس طرح سندھ حکومت اور آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کے درمیان رسہ کشی چلتی رہی ہے۔ سٹیزن ٹرسٹ اگینسٹ کرائم (سی ٹی اے سی) کی کمیٹی کے چیئرمین حاجی ناظم اور دیگر نے پولیس اصلاحات سے متعلق عدالت سے رجوع کیا تھا۔ مگر اُس میں خبروں کی زینت صرف آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کو سندھ حکومت کی جانب سے ہٹائے جانے کا معاملہ بنا۔

حکومتِ سندھ نے پہلے اپنے ایگزیکیٹو آرڈر کے ذریعے آئی جی سندھ کی خدمات وفاق کے سپرد کردیں مگر اُس کو عدالت نے تیکنیکی بنیادوں پر مسترد کردیا، جس کے بعد سندھ کابینہ نے آئی جی کی تبدیلی کی منظوری دی۔ مگر اے ڈی خواجہ سندھ حکومت کی جانب سے ہٹائے جانے کے باوجود عدالتی حکم پر بطور آئی جی کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔

پڑھیے: پاکستان ایشیئن ٹائیگر کیسے بن سکتا ہے؟

حاجی ناظم کا کہنا ہے کہ 8 سال میں سندھ پولیس کے 12 آئی جی تبدیل کردیے گئے ہیں جس سے امن و امان قائم رکھنے والی پولیس کا کمانڈ اسٹرکچر متاثر ہو رہا ہے۔ اے ڈی خواجہ نے پولیس فورس کو حکومتی شخصیات کے ذاتی کاموں کے لیے استعمال کرنے سے انکار کیا ہے۔

اِس سے قبل وفاق میں بھی اختیارات کے استعمال پر عدالتوں نے وزیرِ اعظم پر قدغن عائد کی ہے۔ مالی معاملات میں وزیرِ اعظم کے تنہا اور بطور فردِ واحد فیصلے کرنے کے اختیار کو سپریم کورٹ نے غیر قانونی قرار دیتے ہوئے وزیرِ اعظم کو کابینہ سے مشورہ کرنے اور منظوری لینے کا پابند بنا دیا ہے۔ سپریم کورٹ نے اِس معاملے پر نظر ثانی کی درخواست بھی مسترد کردی ہے۔

اِس کے علاوہ آزاد اور خود مختار اداروں کو وزارتوں میں ضم کرنے کے فیصلے پر بھی عدالت میں مقدمات موجود ہیں۔ اِسی طرح بہت سی مثالیں دی جاسکتی ہیں جس میں ایگزیکیٹو اتھارٹی کو عدلیہ اور دیگر اداروں کی جانب سے کیے گئے فیصلے واپس لینے پڑے ہیں۔

پروفیسر ٹموتھی کے مطابق ایگزیکٹو اتھارٹی کے اختیارات میں کمی سے ریاست میں موجود نسلی تناؤ کو کم کرنے میں بھی مدد ملتی ہے۔ ایگزیکیٹو اتھارٹی میں محدودیت سے محروم رہنے والے طبقات (لسانی، مذہبی یا معاشی) میں احساسِ شرکت کو بڑھانے میں مدد ملتی ہے۔

محروم طبقات کو ایگزیکیٹو اتھارٹی میں کمی یا محدودیت سے یہ احساس ملتا ہے کہ حکمران طبقہ ہی تمام تر وسائل پر قابض نہیں ہوجائے گا بلکہ اُنہیں بھی وسائل میں سے حصہ ملے گا یا اگر اُن کے حصے پر کسی طاقتور نے قبضہ کرنے کی کوشش کی تو ریاست میں موجود ادارے حق دلانے میں اُن کی معاونت کریں گے۔

پروفیسر ٹموتھی جون کے مطابق ریاستوں کے اندر سیاسی عدم استحکام اور تشدد کی وجوہات پر بھی معیشت غالب ہے۔ کم آمدنی والے علاقوں میں امن و امان مخدوش ہوتا ہے۔ اِس کی وجہ کا تعین کرنا ضروری ہے: کیا تنازعہ یا ٹکراؤ کم آمدنی کی وجہ سے ہے یا تنازعہ علامت ہے کم آمدنی کی۔

اِس فارمولے کو پاکستان میں حالیہ دہائی میں ہونے والی پیش رفت کے تناظر میں دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ 18ویں ترمیم کے بعد وفاق کے پاس موجود اختیارات کو بڑے پیمانے پر صوبوں کو منتقل کردیا گیا ہے، جس سے صوبے مالی اور انتظامی معاملات میں وفاق کے مرہون منت نہیں رہے ہیں۔

اِسی سیاسی، مالی اور انتظامی خود مختاری نے پاکستان کے چھوٹے اور پسماندہ صوبوں میں موجود 'پنجاب سامراج' سوچ کو کافی حد تک کم کرنے میں معاونت کی ہے (یہ بات میرے اپنے تجزیے پر منحصر ہے، اِس حوالے سے کوئی سروے یا تحقیق ہونا ضروری ہے)۔ صوبہ سندھ میں قوم پرست جماعتیں جو ریاستی اداروں کے خلاف تھیں، اب اُن کے حق میں بیان اور مظاہرے کرتی ہیں۔

مزید پڑھیے: پی آئی اے کے ساتھ آخر مسئلہ کیا ہے؟

اختیارات خصوصاً معدنی اختیارات اور گوادر بندرگاہ میں صوبائی حکومت کی شراکت داری سے صوبہ بلوچستان کے عوام کے درمیان احساسِ محرومی کم کرنے میں پیش رفت ہوئی ہے۔ گزشتہ ایک دہائی سے دونوں صوبوں کے عوام کو ریاستی اور عسکری اداروں میں شمولیت کے لیے خصوصی رعایت بھی فراہم کی گئی ہے۔

پاکستان میں جمہوری اقدار اور نظام کے پروان چڑھنے کے ساتھ ساتھ ریاستی تشدد میں بھی کمی ہو رہی ہے۔ ریاستی اداروں کی جانب سے طاقت کے بے جا استعمال پر سول سوسائٹی اور ذرائع ابلاغ کی تنقید ریاستی تشدد کو کم کرنے میں اہم ثابت ہو رہی ہے۔

لاہور کے ماڈل ٹاؤن کا واقعہ اور ریاستی تشدد کے بعد کی صورتحال پر ذرائع ابلاغ اور عدالتی ردِعمل اِس کی مثال کے طور پر پیش کیے جاسکتے ہیں۔ مگر ریاست میں اِس کی رِٹ کو چیلنج کرنے والے اور عوام کو تشدد کا نشانہ بنانے والوں پر ریاست کے تشدد کا اختیار سیاسی سطح پر عسکری اداروں کو دیا گیا ہے، جس کے لیے بھی حدود و قیود مقرر کی گئی ہیں۔

ریاست اور ٹیکس کی وصولی

پروفیسر ٹموتھی کے مطابق ریاست میں فردِ واحد کے اختیارات کم کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ ریاست اپنی بنیادی افعال کو سرانجام نہ دے سکے۔ ریاست کا بنیادی کام ٹیکس عائد کرنا اور اُن کی وصولی ہے۔

پروفیسر ٹموتھی ریاست کی جانب سے ٹیکس کا فعال نظام بنانے، ٹیکس کی وصولی اور اُس کو اِس طرح خرچ کرنے پر زور دیتے ہیں، جس سے معاشی ترقی میں بہتری ہو۔ ریاست کو ایسا ٹیکس کا نظام وضح یا تخلیق کرنے کی ضرورت ہے جو کہ منصفانہ ہو۔ ریاست ٹیکس کو ذاتی آمدنی اور جائیداد پر عائد کرنے اور اُسے عدل کے ساتھ وصول کرنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہو۔

ریاست ٹیکس کی وصولی کے ساتھ ساتھ اُس آمدنی کے ذریعے عوامی فلاحی اقدامات بھی کرے تاکہ عوام میں ٹیکس دینے کی ترغیب بھی پیدا ہو۔ اِس مقصد کے لیے کاروبار کی رجسٹریشن، فعال سماجی تحفظ کا نظام (صحت اور تعلیم) عمر رسیدہ اور کمزور افراد کے تحفظ کے ادارے اور پالیسی، انفراسٹریکچر اور دیگر سماجی خدمات شامل ہونے چاہئیے۔

پروفیسر ٹموتھی نے اپنی بحث میں پاکستان میں ٹیکس وصولی کے نظام کو کمزور ترین قرار دیا۔ عالمی بینک کی 2006ء کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے پروفیسر ٹموتھی کا کہنا ہے کہ 128 میں سے پاکستان میں ٹیکس عائد کرنے اور وصول کرنے کی صلاحیت میں صرف 22 ملکوں سے اوپر ہے۔ پاکستان کے بعد افغانستان اور خانہ جنگی تشدد کا شکار افریقی ملک شامل ہیں۔

جانیے: لازمی سروسز ایکٹ اور ملُو مہارانی

پروفیسر ٹموتھی کی ٹیکس کے حوالے سے تھیوری کو پاکستان کے تناظر میں دیکھا جائے تو موجودہ نظام ٹیکس میں فردِ واحد کی اتھارٹی، غیر منصفانہ اختیارات، بدعنوانی اور دیگر نقائص سے بھرپور نظر آتا ہے۔ پاکستان میں ٹیکس کے نظام کو فعال کرنے اور اُس میں سے ایگزیکیٹو اتھارٹی کو کم سے کم کرنے کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے۔

متعدد کاوشوں کے باوجود پاکستان میں وفاقی ادارہ محصولات یا ایف بی آر ایک شفاف اور کرپشن سے پاک ادارے کے طور پر اپنی حیثیت منوانے میں ناکام نظر آرہا ہے۔ ایف بی آر کی جانب سے نہ تو ٹیکس بیس میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور نہ ٹیکس دہندگان کی تعداد میں اضافہ ہوسکا ہے۔

جو لوگ ٹیکس نیٹ میں ہیں اُن پر ٹیکس کا بوجھ بڑھتا چلا جارہا ہے۔ اِس کے علاوہ ایف بی آر کے عملے کی جانب سے مسلسل تنگ کیے جانے کی شکایات بھی روز بروز بڑھتی جارہی ہیں۔ جس سے ٹیکس ادا کرنے والوں کی پریشانی میں اضافہ ہو رہا ہے، جبکہ جو لوگ ٹیکس ادا نہیں کر رہے ہیں، ریاست کا ادارہ ایف بی آر اُن کے خلاف کارروائی کرنے میں ناکام نظر آ رہا ہے۔

سال 2000ء کے بعد سے وفاقی ٹیکس مشینری میں اصلاحات کا عمل شروع کیا گیا۔ اِس کا نام بھی سی بی آر سے تبدیل کرکے ایف بی آر کردیا گیا۔ کمپیوٹرائزیشن اور آٹومیشن کی گئی۔ مگر اِس کے باوجود وہ لوگ، جو ٹیکس ریٹرن جمع کرا رہے ہیں، اُن کی شکایات وفاقی ٹیکس مشینری سے بڑھتی ہی چلی جارہی ہے۔ لیکن 18ویں ترمیم کے بعد صوبہ سندھ اور پنجاب میں قائم ہونے والے صوبائی ٹیکس وصولی کے اداروں کی کارکردگی ایف بی آر کے مقابلے میں زیادہ بہتر تصور کی جارہی ہے۔

معاشی ترقی اور فردِ واحد کا اختیار

بیسلی کے مطابق ریاست کے قیام میں سب سے اہم سیاست، سماجیت اور معاشی خلیج کو باٹنا ہے۔

پاکستان ایسا معاشرہ نہیں جہاں حکومت کے زیرِ اثر معاشی ترقی حاصل کی جاسکے، جیسا کہ کوریا، چین اور سنگاپور میں دیکھا گیا ہے۔ پاکستان میں معاشی ترقی کے لیے ایک آزاد اور خود مختار ریاستی ڈھانچہ تشکیل دیا گیا ہے جہاں نجی شعبے کے ذریعے ترقی کے اہداف حاصل کیے جاتے ہیں۔

ایسے نظام میں فردِ واحد کے اختیار کو کم کرنا ریاست کے لیے اہم ہے، کیونکہ فردِ واحد کے فیصلے کسی ایک فرد کو فائدہ یا نقصان پہنچانے کے لیے ہوتے ہیں۔ پاکستان میں کاروبار کو ریگولیٹ کرنے کے لیے بنائے گئے آزاد ادارے، اسٹیٹ بینک، اسکوٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن، مسابقتی کمیشن، نیپرا، اوگرا، پاکستان ٹیلی کام اتھارٹی اور دیگر خود مختار اتھارٹیز قائم کی گئی ہیں۔

اِن میں سے بعض کو موجودہ حکومت نے براہِ راست اپنی وزارتوں کے ماتحت کرنے کا حکم جاری کیا جس کو عدالتوں میں چیلنج کردیا گیا ہے۔ اِس حوالے سے ڈان اخبار سے وابستہ خرم حسین کی تحریر 3 جنوری کو ریگولیٹری اتھارٹیز کے اختیارات کے مسئلے پر ڈان کی ویب سائٹ پر شائع ہوچکی ہے۔

پروفیسر ٹموتھی جون بیسلی کا کہنا ہے کہ جہاں پر ریاست نے ایگزیکیٹو اتھارٹیز کو کم اور محدود کردیا ہے۔ انپٹس پیداوار اور وسطی ایشیاء کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ، وہاں پر سرمایہ کار خود کو زیادہ محفوظ تصور کرتا ہے۔ براہِ راست غیر ملکی سرمایہ کاری وہاں پر زیادہ ہوتی ہے جہاں پر مضبوط ایگزیکیٹو پابندیاں ہوں۔ 80 فیصد ایف ڈی آئی اُن ممالک میں جاتی ہے جہاں ایگزیکٹو کی طاقت کم ہو۔

اپنی تحریر کے شروع میں سقوطِ مشرقی پاکستان کا ذکر کیا تھا۔ لیکچر کے اختتام پر کھانے کی طرف جاتے ہوئے میں سوچتا رہا کہ اگر 60ء اور 70ء کی دہائی میں پاکستان کے حکمران طبقے نے اختیارات کو مرکز اور فردِ واحد میں مرتکز کرنے کے بجائے اِس کو وسیع البنیاد طریقے سے تقسیم کیا ہوتا اور یہ سوچ اُس وقت کی بیوروکریسی اور سیاسی قیادت میں موجود ہوتی تو سانحہ مشرقی پاکستان سے بچا جاسکتا تھا۔

پاکستان میں فردِ واحد یا ایگزیکیٹو کی اتھارٹی کو محدود کرنے کے لیے کئی اقدامات کیے گئے ہیں اور مزید اقدمات کیے جانے کی ضرورت ہے۔

اگر پاکستان میں اختیارات کو نچلی سطح اور خودمختار اداروں کے حوالے کیا جائے تو اِس سے ملکی سلامتی کو درپیش چیلنجز کو کم کرنے، قومی ہم آہنگی بڑھانے، چھوٹے صوبوں میں احساسِ محرومی ختم کرنے میں مدد ملے گی۔ جس سے سیاسی انتشار اور تشدد کم ہوگا اور معیشت کو ترقی کرنے کے مواقع ملیں گے۔

تبصرے (4) بند ہیں

KHAN Dec 19, 2017 11:31pm
پروفیسر ٹموتھی کے مطابق اگر ریاستی ایگزیکٹو کے اختیارات کو کم اور اُس پر مؤثر نگرانی کا نظام قائم کیا جائے تو بہتر اور مستحکم معاشی ترقی حاصل کی جاسکتی ہے اور ریاست زیادہ سے زیادہ ٹیکس بھی جمع کرسکتی ہے ] مگر ہمارے ہاں کیا ہورہا ہے کہ ایگزیکٹو اتھارٹی پر خوامخواہ دباؤ ڈالا جاتا ہے، کل ہی سی پی این کا وفد وزیر اعظم سے ملا دیگر معاملات کے ساتھ ساتھ ان سے یہ گفتگو بھی کی کہ کے الیکٹرک کے لیے ٹیرف میں اضافہ کیا جائے، نیپرا نے پوری چھان بین کے بعد جو ٹیرف منظور کیا ہے، اس کے بجائے نام لیکر ایک نجی کمپنی ابراج کی وکالت کرتے ہوئے وزیر اعظم سے ٹیرف بڑھنے کا مطالبہ کیا گیا، سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ سی پی این ای کے آئین میں اس طرح کی کوئی گنجائش موجود نہیں۔ دوسرا نیپرا کے فیصلے کیخلاف نیپرا کی سماعت میں ہی بات کرنی چاہیے نہ کہ پریشر گروپوں کیطرح وزیر اعظم سے، کے الیکٹرک چاہتی ہے کہ انکا من چاہا ٹیرف منظور ہو جس سے 7 سال میں کراچی کے لوگوں کو 400 ارب روپے زیادہ ادا کرنے ہونگے جو منظور نہیں۔ کیا ابراج کا 10 ارب لگا کر 10 ارب کمانا ضروری ہے، 1 یا 2 ارب کا منافع ٹھیک نہیں۔ کراچی کا خیرخواہ
راجہ کامران Dec 20, 2017 08:00pm
@KHAN آپ کا تبصرہ درست ہے۔
حامدالرحمٰن Dec 20, 2017 08:24pm
راجا صاحب ایک ہمیشہ کی طرح ایک معلوماتی تحریر
سمیرا Dec 21, 2017 10:11am
یہ تحریر اچھی ہے۔ اور اس میں فلسفے کو عملی جامہ پہنانے کی بات کی گئی ہے۔ مصنف نے پاکستان سے جو مثالیں دیں اس سے بہتر مثالیں دی جاسکتی تھیں۔ تحریر میں تازدگی کا عنصر غائب ہے۔ اور تحریر کو تازہ مثالیں بھی غائب۔ بہر حال مصنف کی ایک بہتر کوشش ہے۔