اسلام آباد/لاہور: اپوزیشن جماعتوں کی حکومت کی جانب سے سائبر کرائم بل کے مبینہ 'غلط استعمال' کی مذمت کے باوجود وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) نے سوشل میڈیا پر پاک فوج کے خلاف منظم مہم میں ملوث افراد کی نشاندہی کرتے ہوئے کریک ڈاؤن کا آغاز کردیا۔

اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے اس کریک ڈاؤن کے دوران نہ صرف اپنے بلکہ حکمراں جماعت کے حامیوں کی گرفتاری پر بھی آواز بلند کی گئی۔

ایف آئی اے حکام نے ڈان سے گفتگو میں کہا کہ 'ہم نے ایسے درجنوں مشتبہ افراد کی نشاندہی کی ہے جو افواج پاکستان کے خلاف سوشل میڈیا پر منظم مہم چلانے میں مصروف تھے، ان میں سے چند افراد کو تحقیق کے لیے حراست میں بھی لیا گیا ہے'۔

واضح رہے کہ ان کارروائیوں کا حکم ایک ہفتہ قبل وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کی جانب سے دیا گیا تھا۔

چوہدری نثار علی خان نے یہ احکامات 10 مئی کو پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے ڈان اخبار کی رپورٹ کی تحقیقات کے لیے قائم کمیٹی کے فیصلے پر کی گئی ٹوئٹ کو واپس لینے کے بعد انٹرنیٹ پر شروع ہونے والے تنقید کے سلسلے کا نوٹس لیتے ہوئے جاری کیے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: تحریک انصاف کی سوشل میڈیا ٹیم کا رکن زیر حراست

حکام کا کہنا تھا کہ حکومت نے ایف آئی اے کے محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) سے فوج مخالفت کے پیچھے موجود 'اصل مجرموں' کی تلاش کا حکم دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ 'سی ٹی ڈی سوشل میڈیا پر فوج مخالف مہم چلانے والے افراد کی تلاش میں مدد فراہم کررہی ہے'۔

حکام کا مزید کہنا تھا کہ 'ہم چند مشتبہ افراد کو حراست میں لے چکے ہیں، لیکن اس وقت ان کی شناخت سب کے سامنے نہیں لائی جاسکتی، تاہم کریک ڈاؤن میں گرفتار کیے گئے کسی بھی شخص کے خلاف کوئی مقدمہ قائم نہیں کیا گیا ہے'۔

انہوں نے واضح کیا کہ ان افراد کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کے تفصیلی فرانزک تجزیے کے بعد ہی کوئی الزام عائد کیا جائے گا کیونکہ اب لوگوں کے جعلی اکاؤنٹس بنانا اور ان کے نام پر اپنی مرضی کے پیغامات پوسٹ کرنا عام ہوچکا ہے۔

مزید پڑھیں: متنازع سائبر کرائم بل منظور

اس حوالے سے ایف آئی اے کے سائبرکرائم ونگ کی فرانزک ٹیمیں مشتبہ افراد کے فیس بک اکاؤنٹس، واٹس گروپس، بلاگز اور ویب سائٹس جہاں کہیں متنازع مواد شائع کیا گیا ہو، کی جانچ میں مصروف ہیں۔

حکام نے وضاحت کی کہ 'ایف آئی کا نشانہ غیرارادی طور پر کمنٹس اور تصویریں پوسٹ کرنے والے افراد نہیں'۔

سیاسی وابستگی سے پرے حمایت

ہفتے کے روز، ایف آئی اے کی ٹیم نے حکمراں جماعت کے سوشل میڈیا پر فعال حامی ڈاکٹر فیصل رانجھا کو فوج مخالف مواد پوسٹ کرنے کے شبے میں گجرانوالہ کے نزدیک کاموکی سے حراست میں لیا اور اسلام آباد میں واقع ایف آئی اے ہیڈ کوارٹرز منقتل کردیا۔

ڈاکٹر فیصل رانجھا کے ہمراہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چند کارکنان کو بھی گرفتار کیا گیا تھا۔

ذرائع کے مطابق تمام زیر حراست افراد کو پوچھ گچھ کے بعد رہا کردیا گیا تاہم ان کے خلاف شکایات درج کی جاچکی ہیں۔

پی ٹی آئی کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی نے اتوار کے روز تمام گرفتار کارکنان سے ملاقات کی اور انہیں اپنی پارٹی کی مکمل حمایت کی یقین دہانی کرائی۔

تحریک انصاف نے یہ اعلان بھی کیا کہ وہ حکومت کی جانب سے سیاسی کارکنان اور سوشل میڈیا صارفین کے خلاف کی گئی 'غیرقانونی کارروائی' پر اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کریں گے۔

ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے ترجمان پی ٹی آئی فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ ان کی پارٹی تمام سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے سوشل میڈیا کارکنان کا ساتھ دے گی کیونکہ وہ آزادی اظہار رائے پر یقین رکھتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی ایف آئی اے کی ان کارروائیوں کے خلاف نیشنل پریس کلب کے سامنے مظاہرہ بھی کرے گی۔

دوسری جانب پاکستان مسلم لیگ (ن) ذرائع کے مطابق سوشل میڈیا کارکنان کے خلاف کریک ڈاؤن کی حکومتی پالیسی پر پارٹی میں بڑی حد تک اختلاف پایا جاتا ہے اور چند رہنما وزیراعظم کی وطن واپسی پر یہ معاملہ ان کے سامنے پیش کرنے کی تیاری میں ہیں۔

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) بھی اس کارروائی کو 'غیر جمہوری، آئین کے منافی اور بے سود' قرار دے چکی ہے۔

ترجمان پی پی پی فرحت اللہ بابر کا اپنے ایک بیان میں کہنا تھا کہ ریاست کی جانب سے سائبر کرائم قانون کا 'بڑھتا ہوا غلط استعمال' تشویش کا سبب ہے اور اسے روکا جانا چاہیئے۔

انہوں نے کہا کہ قومی سلامتی کے نام پر سوشل میڈیا صارفین کے خلاف کارروائی قابل قبول نہیں۔

'صحافی' کو ہراساں کیے جانے کا واقعہ

دوسری جانب اتوار کے روز ایک صحافی نے بھی یہ دعویٰ کیا کہ ایف آئی اے انہیں ہراساں کررہی ہے اور انہوں نے مدد کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ جانے کا فیصلہ کیا ہے۔

مختلف غیر ملکی میڈیا اداروں کے لیے کام کرنے والے صحافی طحہٰ صدیقی اپنا کیس وکیل عاصمہ جہانگیر کے ذریعے دائر کریں گے۔

اپنی درخواست میں طحہٰ صدیقی کا کہنا ہے کہ انہیں رواں ہفتے ایک شخص کی کال موصول ہوئی جس نے اپنی شناخت ایف آئی اے کے ڈائریکٹر محکمہ انسداد دہشت گردی نعمان بودلہ کے نام سے کرائی۔

درخواست کے مطابق، فون پر انہیں ہدایت دی گئی کہ وہ ایجنسی کے سامنے پیش ہوں۔

طحہٰ صدیقی کا دعویٰ ہے کہ ایف آئی اے افسر نے ان سے نامناسب انداز میں بات کی اور یہ بھی نہیں بتایا کہ انہیں ایجنسی کس سلسلے میں طلب کیا جارہا ہے۔

صحافی کا کہنا ہے سوشل میڈیا پر گردش کرتی ایک فہرست میں ان کا نام موجود ہے جس پر وہ ہراساں محسوس کررہے ہیں اور پیشہ وارانہ فرائض کی انجام دہی بھی متاثر ہوئی ہے۔

صحافی کی درخواست پر موجود نمبرز پر رابطہ کیا گیا تو فون پر موجود شخص نے ڈان کو اس بات کی تصدیق کی کہ وہ ایف آئی اے کے افسر ہیں۔

تاہم انہوں نے یہ بیان نہیں کیا کہ صحافی کو کن الزامات کا سامنا ہے۔

ڈان سے گفتگو میں نعمان بودلہ کا کہنا تھا کہ 'ہر شخص کو عدالت سے رجوع کرنے کا حق ہے، اگر یہ صحافی عدالت جانا چاہتے ہیں تو انہیں جانے دیا جائے، ہم اپنا مؤقف عدالت کے سامنے پیش کریں گے'۔


یہ خبر 22 مئی 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

تبصرے (0) بند ہیں