اسلام آباد: وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کی جانب سے مبینہ طور پر ہراساں کیے جانے والے صحافی طحہٰ شکیل صدیقی نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کرادی۔

ڈان کو حاصل ہونے والی درخواست کی کاپی کے مطابق صحافی اور 'ورلڈ از ون نیوز' کے بیورو چیف طحہٰ صدیقی نے اپنی درخواست میں مؤقف اختیار کیا کہ ایف آئی اے کے انسداد دہشت گردی ونگ کے ڈپٹی ڈائریکٹر نے انہیں فون کال کے ذریعے ہراساں کیا۔

صحافی طحہٰ شکیل صدیقی نے اپنی درخواست سنیئر وکیل عاصمہ جہانگیر کے ذریعے دائر کی، جس میں وزارت داخلہ، ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے اور ڈپٹی ڈائریکٹر ایف آئی اے نعمان بودلہ کو فریق بنایا گیا۔

درخواست گزار نے موقف اختیار کیا کہ انہیں فون کال کے ذریعے ایف آئی اے ہیڈ کوارٹرز میں انکوائری کے لیے بلایا گیا، کال کرنے والے ایف آئی اے اہلکار کا سرسری طور پر یہ کہنا تھا کہ ان سے صحافتی سرگرمیوں سے متعلق پوچھ گچھ کی جائے گی۔

طحہٰ صدیقی کا کہنا تھا کہ جب انہوں نے ایف آئی اے ہیڈ کوارٹرز میں پیش ہونے پر ہچکچاہٹ ظاہر کی تو ان سے دھمکی آمیز لہجہ اختیار کیا گیا۔

مزید پڑھیں: فوج مخالف مہم میں ملوث افراد کے خلاف ایف آئی اے کا کریک ڈاؤن

طحہٰ صدیقی کا مزید کہنا تھا کہ 'میں ایک صحافی ہوں، میرا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں، جبکہ ایف آئی اے انسداد دہشت گردی ونگ کا رویہ غیر قانونی ہے'۔

انہوں نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے استدعا کی کہ ایف آئی اے کو مجھے ہراساں کرنے سے روکا جائے۔

درخواست میں یہ الزام بھی عائد کیا گیا کہ 'درخواست گزار نے اپنے گھر کے باہر سادہ لباس میں ملبوس مشکوک افراد کو دیکھا ہے جس کے بعد احتیاط برتتے ہوئے انہوں نے اپنی نقل و حرکت کی تمام معلومات اہل خانہ اور دوستوں کو فراہم کرنا شروع کردی ہے'۔

درخواست میں کہا گیا کہ 'ایف آئی اے کے محکمہ انسداد دہشت گردی کی جانب سے صحافی کو طلب کیا جانا، جس کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہ ہو، ناقابل فہم بات ہے'۔

واضح رہے کہ حال ہی میں وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) نے سوشل میڈیا پر پاک فوج کے خلاف منظم مہم میں ملوث افراد کی نشاندہی کرتے ہوئے کریک ڈاؤن کا آغاز کیا ہے۔

ایف آئی اے حکام نے ڈان سے گفتگو میں کہا کہ 'ہم نے ایسے درجنوں مشتبہ افراد کی نشاندہی کی ہے جو افواج پاکستان کے خلاف سوشل میڈیا پر منظم مہم چلانے میں مصروف تھے، ان میں سے چند افراد کو تحقیق کے لیے حراست میں بھی لیا گیا ہے'۔

واضح رہے کہ ان کارروائیوں کا حکم ایک ہفتہ قبل وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کی جانب سے دیا گیا تھا۔

چوہدری نثار علی خان نے یہ احکامات 10 مئی کو پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے ڈان اخبار کی رپورٹ کی تحقیقات کے لیے قائم کمیٹی کے فیصلے پر کی گئی ٹوئٹ کو واپس لینے کے بعد انٹرنیٹ پر شروع ہونے والے تنقید کے سلسلے کا نوٹس لیتے ہوئے جاری کیے تھے۔

دوسری جانب اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے اس کریک ڈاؤن کے دوران نہ صرف اپنے بلکہ حکمراں جماعت کے حامیوں کی گرفتاری پر بھی آواز بلند کی گئی۔


ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں