اسلام آباد: وزیراعظم کے بڑے صاحبزادے حسین نواز پاناما پیپرز میں میں لگائے گئے الزامات کی تحقیقات سے متعلق بنائی گئی جے آئی ٹی کے سامنے پانچویں مرتبہ پیش ہوگئے۔

اس موقع پر فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی کے باہر سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے۔

گذشتہ روز وزیراعظم کے چھوٹے صاحبزادے جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوئے تھے جن سے جے آئی ٹی نے 5 گھنٹے طویل تفتیش کی تھی۔

حسین نواز دیگر لیگی رہنماؤں اور کارکنوں کی بڑی تعداد کے ہمراہ اکیڈمی پہنچے جہاں انھوں نے میڈیا کے نمائندوں کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ جنہوں نے تصویر لیک کی ہے اس کا مقصد بھی وہی بتائیں گے۔

مزید پڑھیں: حسین نواز کی چوتھی مرتبہ پاناما جے آئی ٹی کے سامنے پیشی

انھوں نے کہا کہ ‏کوئی حکومت اورعدالت شکوک وشبہات پر کارروائی نہیں کرسکتی، ثبوت پر کارروائی ہوتی ہے تو ہونی چاہیے۔

بعد ازاں حسین نواز نے جے آئی ٹی میں پیشی کے بعد جوڈیشل اکیڈمی کے باہر میڈیا کے نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ کارکنوں کا شکرگزار ہوں جو یہاں تشریف لائے اور ان ماؤں کا بھی جو گھروں میں بیٹھ کرمیرے لیے دعا کرتی ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ سوالات سے نہیں لگتا کہ جے آئی ٹی انھیں دوبارہ بلائے گی، تاہم جے آئی ٹی جب بھی بلائے گی میں آؤں گا۔

حسین نواز نے کہا کہ الیکشن لڑنے کا کوئی ارادہ نہیں، حسن نواز نے میڈیا سے بات نہیں کی یہ ان کا ذاتی فیصلہ تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ تحقیقات سے مجھے نہیں جے آئی ٹی والوں کو مطمئن ہونا ہے، جے آئی ٹی کو کرپشن کا کوئی ثبوت نہیں ملے گا، اگر کوئی ثبوت ملے تو اس کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔

وزیراعظم نواز شریف کے صاحبزادے نے کہا کہ ایک خاص سیاسی جماعت کی وجہ سے یہ معاملہ اٹھایا گیا، شکوک و شبہات پر کسی کے خلاف کارروائی نہیں کی جاسکتی، شک سے بچنا چاہیے، یہ ایک شیطانی عمل ہے۔

جے آئی ٹی کے پاس نیب کے اختیارات، آصف کرمانی

حیسن نواز کے جوڈیشل اکیڈمی میں پیشی کے موقع پر میڈیا کے نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما آصف کرمانی کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم نے نیب کے اختیارات جے آئی ٹی کو دیئے اور تمام تحفظات کے باوجود جے آئی ٹی سے تعاون کررہے ہیں۔

انھوں نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان سے درخواست ہے وہی کریں جو نواز لیگ کررہی ہے، جس طرح وزیر اعظم ملک میں تعمیر اور ترقی کو فروغ دے رہے ہیں آپ بھی وہی کریں۔

آصف کرمانی نے دعویٰ کیا کہ حکومت نے کراچی کی روشنیاں لوٹائیں اور نواز شریف بلوچستان کا امن لوٹا رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: حسن نواز سے جے آئی ٹی کی 5 گھنٹے طویل تفتیش

انھوں نے پھر دہرایا کہ وزیراعظم نواز شریف نے خود اپنے خاندان کو احتساب کیلئے پیش کیا اور ان کے صاحبزادے ایک عام آدمی کی طرح احتساب کے لیے پیش ہورہے ہیں۔

لیگی رہنما نے عدالت سے مطالبہ کیا کہ عمران خان کے خلاف بھی جے آئی ٹی بنائی جائے کیونکہ کہ وہ عدالتوں پر الزامات لگاتے ہیں۔

اس سے قبل لاہور میں وزیر قانون پنجاب رانا ثناء اللہ نے میڈیا کے نمائندوں سے بات چیت کے دوران کہا تھا کہ حسین نواز کو آج پانچویں مرتبہ طلب کیا گیا۔

انھوں نے دعویٰ کیا کہ حسین نواز سے 60 سے 70 گھنٹے کی تحقیقات ہوچکی ہے۔

پاناما پییر کیس اور جے آئی ٹی کی تشکیل

یاد رہے کہ رواں برس 20 اپریل کو سپریم کورٹ نے پاناما لیکس کیس کے تاریخی فیصلے میں وزیراعظم نواز شریف کے خلاف مزید تحقیقات کے لیے فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے اعلیٰ افسر کی سربراہی میں جے آئی ٹی بنانے کا حکم دیا تھا۔

فیصلے میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ ایف آئی اے کے سینئر ڈائریکٹر کی سربراہی میں جے آئی ٹی تشکیل دی جائے گی جو 2 ماہ میں اپنی تحقیقات مکمل کرے گی، جبکہ جے آئی ٹی کو ہر 2 ہفتے بعد سپریم کورٹ کے بینچ کے سامنے اپنی رپورٹ پیش کرنے کی بھی ہدایت کی گئی تھی۔

اس کے بعد 6 مئی کو سپریم کورٹ کے جسٹس اعجاز افضل خان، جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الحسن پر مشتمل تین رکنی خصوصی بینچ نے جے آئی ٹی میں شامل ارکان کے ناموں کا اعلان کیا تھا۔

مزید پڑھیں: فوٹو لیک: تحقیقات کیلئے حسین نواز کا سپریم کورٹ سے رجوع

جے آئی ٹی کا سربراہ وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل واجد ضیاء کو مقرر کیا گیا ہے جبکہ دیگر ارکان میں ملٹری انٹیلیجنس (ایم آئی) کے بریگیڈیئر کامران خورشید، انٹر سروسز انٹیلیجنس (آئی ایس آئی) کے بریگیڈیئر نعمان سعید، قومی احتساب بیورو (نیب) کے گریڈ 20 کے افسرعرفان نعیم منگی، سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) کے بلال رسول اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے عامر عزیز شامل ہیں۔

وزیراعظم کے صاحبزادے حسین نواز اس سے قبل جے آئی ٹی کے سامنے 3 مرتبہ جبکہ حسن نواز ایک مرتبہ پیش ہوچکے ہیں۔

جے آئی ٹی ارکان پر اعتراض کا معاملہ

یہ بھی یاد رہے کہ گذشتہ دنوں حسین نواز نے رجسٹرار سپریم کورٹ کو کی گئی ایک ای میل کے ذریعے جے آئی ٹی کے کچھ افسران کی غیر جانبداری پر سوال اٹھائے تھے جن کے بارے میں خدشہ ظاہر کیا گیا تھا کہ وہ تحقیقات پر مبینہ طور پر اثر انداز ہوسکتے ہیں۔

تاہم بعد ازاں جے آئی ٹی کے دو ارکان کے خلاف اعتراض سے متعلق حسین نواز کی درخواست سپریم کورٹ کے خصوصی بینچ نے مسترد کردی تھی۔

حسین نواز کی درخواست کی سماعت کے دوران جسٹس اعجاز افضل نے کہا تھا کہ نہ جے آئی ٹی کے کسی رکن کو تبدیل کریں گے نہ ہی کسی کو کام سے روکیں گے، کسی کے خلاف خدشات قابل جواز ہونا ضروری ہیں، ہم نے ہی جے آئی ٹی کے ان ممبران کو منتخب کیا تھا، اگر کسی پر مجرمانہ بدنیتی کا شبہ ہے تو اسے سامنے لائیں اسی صورت میں اس کے خلاف کارروائی کی جا سکتی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں