میرے سپروائزر نے میرا مقالہ اٹھا کر فرش پر پٹخ دیا اور کہا "تم مجھے ڈگری لے کر دکھاؤ!"

میرا قصور اتنا تھا کہ میں ان سے صرف اتنا پوچھ بیٹھا تھا کہ 'اِمپروو اٹ' (مزید بہتر کریں) کا مطلب کیا ہے، کیوں کہ مسلسل آٹھویں بار میرے ریسرچ پروپوزل پر وہ یہی الفاظ لکھ رہے تھے۔

مقالے کو بہتر بنانے کے لیے میں نے اپنے طور پر پوری کوشش کی، سینئرز اور دوستوں سے لے کر دیگر اساتذہ کرام سے رہنمائی لی اور انہوں نے اپنی بساط بھر مقالے کے ڈرافٹ کو بہتر کرنے کی کوشش کی، مگر میرے سپروائزر اس کو مزید بہتر کروانا چاہتے تھے۔

ان کے بارے میں مشہور تھا کہ ان کے پاس بمشکل ہی کوئی ریگولر ڈگری مکمل کر پاتا ہے، ہم چھے طلبہ میں سے صرف دو نے ریگولر سیمسٹر میں اپنی ڈگری مکمل کی تھی جبکہ باقی چار میں سے تین نے سمر سیمسٹر اور ایک طالب علم نے تو اضافی سال لگا دیا۔

یہ پرانی کہانی چند دن پہلے اس وقت شدت سے یاد آئی جب پاکستان کی ایک مشہور یونیورسٹی کے ایک اسسٹنٹ پروفیسر صاحب نے یہ بتایا کہ ان کے ڈین صاحب نے اپنے بیٹے کے لیے 'اے گریڈ' کا مطالبہ کیا جبکہ متعلقہ طالب علم پاس ہونے کی بھی بمشکل سکت رکھتا تھا، سو انہوں نے صاحب اختیار کے بیٹے کو اے گریڈ نہیں دیا، جس کے نتیجے میں کچھ عرصے بعد ہی ان کا تبادلہ اس یونیورسٹی کے سب کیمپس میں کر دیا گیا۔

اسسٹنٹ پروفیسر صاحب بھی ہمت کرتے ہوئے عدالت سے حکم امتناع لے آئے۔ متعلقہ ڈین صاحب اس پر خاموش نہ بیٹھے اور انہوں نے انتظامیہ کے تعاون سے ان صاحب کو ان کی رہائش سے بے دخل کروانے کی کوشش بھی کی۔

پڑھیے: پاکستانی یونیورسٹیز میں ریسرچ کی حالت زار

ایسی ذاتی دشمنیاں ہمارے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں آئے دن کی داستان بن چکی ہیں، جس میں اعلیٰ ترین ڈگریوں کے حامل اساتذہ اَن پڑھ صاحب اختیار لوگوں کا سا رویہ روا رکھتے ہیں۔ افسوس کہ ملک بیرون ملک سے تعلیم اور درس و تدریس کے شعبے سے وابستگی بھی ان کے دماغ کو روشن نہیں کر پاتی۔

لیجیے اس سے ملتی جلتی کہانی بھی ملاحظہ کر لیجیے، ہمارے ایک دوست جو اب آسٹریلیا سے پی ایچ ڈی کی ڈگری کرنے کے بعد ڈاکٹر بن چکے ہیں، پنجاب کی ایک یونیورسٹی کے طالب علم تھے اور تعلیمی میدان میں گولڈ میڈل کے مقابلے کے سب سے طاقتور کھلاڑی تھے۔ ڈگری کے آخری سیمسٹر میں ہونے والی انٹرن شپ کی ڈیپارٹمنٹ ایویلیوایشن میں اس کو اتنے کم نمبر دیے گئے کہ اس کا گولڈ میڈل سلور میڈل میں تبدیل ہو گیا اور اس کے مقابلے میں موجود کسی پروفیسر کی بیٹی کو اسی طرز کی انٹرن شپ میں اتنے زیادہ نمبر ملے کہ وہ ارباب سے آگے نکل گئیں۔

جامعات کے اندر جہاں امتحانات میں نمبر دینے کی ساری ذمہ داری آپ کو پڑھانے والے استاد پر ہوتی ہے، وہاں کئی ایسے استاد صاحبان اس اختیار کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں، طلبہ کو عجیب و غریب اسائنمنٹس کے دھندے میں الجھائے رکھتے ہیں، جب چاہے کسی طالب علم کے گرد شکنجہ کسنا ہو تو کوئی نہ کوئی وجہ بنا کر بیچارے کو پھنسا دیا جاتا ہے۔

اگر آپ نے کسی یونیورسٹی سے ڈگری حاصل کر رکھی ہے تو ایسے درجنوں واقعات آپ کی جیب میں بھی ہوں گے جہاں استاد صاحبان نے اپنے ہاتھ میں موجود اختیارات کا ناجائز فائدہ اٹھایا ہو گا۔

مزید پڑھیے: پی ایچ ڈی کرنا چاہتے ہیں؟ سوچ لیں

اس میں کوئی شک نہیں کہ جامعات کے پروفیسر صاحبان بھی ہم جیسے انسان ہیں اور اسی معاشرے کے کردار ہیں، لیکن اعلیٰ ترین تعلیم بانٹنے والوں کے کندھوں پر جو بھاری ذمہ داری ہے، شاید وہ اس ذمہ داری سے پوری طرح آگاہ نہیں۔

کیا یہ استاد کو زیب دیتا ہے کہ طالب علموں کو فقط اس لیے معتوب ٹھہرائے کہ ان کا تعلق کسی مخالف مکتبہ فکر سے ہے؟ کیا کسی سیاسی گروپ کے ساتھ وابستگی اساتذہ کو اس حد تک گرا سکتی ہے کہ میرٹ کا فیصلہ متعصب عینک پہن کرنے لگ جائیں؟ کیا بڑے تعلیمی اداروں کو اپنے کلاس رومز میں ایسا معیار عدل بانٹنا نہیں چاہیے کہ جہاں سچ اور جھوٹ میں فرق ہو؟ اور کرپشن کے خلاف عملی تصور اور تصویر کو پروان چڑھانا نہیں چاہیے؟

لیکن پھر سوچتا ہوں کہ شاید کسی نے علم حاصل کر رکھا ہو تو شاید شعور کی کسی منزل تک پہنچا ہو گا، رینٹل ریسرچر (تحقیق کے لیے کسی کو کرائے پر رکھنا) کی اصطلاح ابھی نئی ہے لیکن یہ کام بہت پرانا ہے۔ ہمارے جیسے ملکوں میں جہاں اعلیٰ ڈگریاں تعلقات کے سائے میں پروان چڑھتی ہیں، جب مکمل ہو جائیں تو جن احسانات تلے دب کر حاصل کی جاتی ہیں، وہ اس علم کی تاثیر ہمیشہ کے لیے گونگی کر دیتے ہیں۔

لیکن میری امید ان بے شمار سائنسدانوں اور محققین سے ہے جو ابھی ابھی کسی بیرون ملک یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کر کے لوٹے ہیں کہ خدارا اس نمک کی کان میں نمک ہونے سے بچیے۔ پاکستان کے تعلیمی اداروں کو مثالی بنانے کے ابھی بہت قربانیوں کی ضرورت ہے۔ شاید ابتدا کے کچھ سال کانٹے چننے میں ہاتھ تھوڑے لہو ہوں مگر اسی سے وہ صبح امید طلوع ہو گی جو شام آرزو میں ڈھل جائے گی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (8) بند ہیں

Haadi Farooqi Jun 20, 2017 11:29am
ایک بہترین عنوان کو سامنے لائے ہیں آپ رمضان بھائی ، کمال کردیا
رمضان رفیق Jun 20, 2017 12:02pm
@Haadi Farooqi بہت شکریہ حدی فاروقی
ali Jun 20, 2017 12:57pm
Ramzan bhai iss ka hal kya hai?? yeh kab aisa chaly ga?? Sindh ki universities main tu iss mamly main bohat hi bura haal,, cant even describe here,,,
tahir naseem Jun 20, 2017 01:15pm
I faced the same issue during my thesis submission for MBA in project management. As I had almost 15 years Project management experience with MNCs at that time (back from 2007 to 2010). I prepared my thesis on Resource leveling and its cost / time benefits for a construction project. The mentors dont like the idea and said it is not project management.......???. it took almost 1 and half years but i wan unable to convince them. At the end my wife said you need the degree just prepared as per their guideline. I Prepared the project on Motivation of employees with nothing to be value added to my learning/ knowledge but easy to check for mentors and got approval within 6 months.
Imran Ahmad Qasrani Jun 20, 2017 01:32pm
Ager assay loogon ko bay naqab kerna hai tu Naam likhny ki bhi jurat kerni chahiay. tah k jo aur bechary phansay hain unki tu jaan chootay.
Shakeel Tariq Jun 20, 2017 02:24pm
شاید میری بات تھوڑی سیاسی اور typical سی لگے لیکن اصل میں ہمیں ہر لیول پر ایک مناسب احتسابی نظام کی ضرورت ہے- اگر ایسے لوگوں کو رپورٹ کرنے کا کوئی سسٹم ہو HEC کی طرف سے یا پھر کم از کم ادارے کے لیول پر تو کچھ نہ کچھ بہتری تو آ سکتی ہے - چیک اینڈ بیلنس کا نظام ہونا ضروری ہے -
ذیشان Jun 20, 2017 02:44pm
جی ہاں درست فرمایا، یونیورسٹی میں کہا جاتا تھا کہ "اوپر اللہ اور نیچے آپکا سپروائزر ہی سب کچھ ہے" نعوذباللہ ثم نعوذباللہ کہ یہ نوبت چند اساتذہ کے رویے سے ہی آئی ہوگی۔۔۔۔۔۔۔
حسن اکبر Jun 20, 2017 03:41pm
ٕمحترم رمضان رفیق صاحب :پہلے کی طرح ایک اورمعیاری بلاگ تحریر کرنے کا بہت شکریہ میرے خیال میں جب تک پاکستان میں تعلیمی محتسب کا ادارے قائم نہیں ہوگا۔ پاکستان میں طلبہ کے حقیقی مسائل حل نہیں ہوسکتے ۔ تعلیمی اداروں اور تعلیمی بورڈ زکی انتظامیہ کا رویہ کئی دفعہ روایتی بیورو کریسی سے بھی برا ہوتا ہے ۔ طاقت اور تمام اختیارات صرف انتظامیہ کے پاس ہے اور طالب علموں کے پاس اپنی شکایت کے ازلہ کا کوئی سستا جلدی اور قانونی راستہ موجود نہیں اور پاکستان کا عدالتی نظام تو بس !!!!!! اس لئے پاکستان میں وفاقی اور صوبائی محتسب کی طرز پر تعلیمی محتسب کا باقاعدہ ادارے قائم ہونا چاہے تاکہ ظلم اور ناانصافی کی صورت میں سستا اور فوری انصاف مل سکے