جے یو آئی(ف) کے ایم این اے پرجامعہ کی تقرریوں میں مداخلت کا الزام
اسلام آباد: رکن قومی اسمبلی مولانا گوہر شاہ کی جانب سے باچا خان یونیورسٹی میں تقرریوں کے حوالے سے پوچھا جانے والا سوال ان کے لیے اس وقت شرمندگی کا باعث بن گیا جب یونیورسٹی حکام نے الزام عائد کیا کہ مولانا خود بھی درجنوں افراد کو یونیورسٹی میں نوکریاں دلوا چکے ہیں جبکہ انتظامیہ سے مزید افراد کی بھرتیوں پر بھی زور ڈالتے رہے ہیں۔
منگل (20 جون) کے روز پارلیمنٹ ہاؤس میں قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے وفاقی تعلیم اور پیشہ ورانہ تربیت کے اجلاس کے دوران جمعیت علماء اسلام (ف) کے مولانا گوہر نے یونیورسٹی میں تقرریوں کی تفصیلات کا معاملہ اٹھایا۔
انہوں نے الزام عائد کیا کہ یونیورسٹی انتظامیہ نے اشتہار اور امیدواروں کے انٹرویوز کے بغیر 50 افراد کو نوکریاں دیں۔
دوسری جانب باچا خان یونیورسٹی کے حکام کا دعویٰ تھا کہ مولانا گوہر شاہ خود بھی 13 افراد کو یونیورسٹی میں نوکریاں دلوا چکے ہیں۔
مولانا گوہر کا کہنا تھا کہ 'طے شدہ طریقہ کار پر عمل نہ کرتے ہوئے لوگوں کو تقرر کرنا ناانصافی ہے، یہ ہی وجہ ہے کہ انہوں نے یونیورسٹی انتطامیہ سے کہا کہ تقرریوں سے متعلق بریفنگ دی جائے لیکن مجھے مکمل جواب نہیں دیا گیا‘۔
یونیورسٹی کے ایک ڈائریکٹر ڈاکٹر اکرام اللہ نے ابتدا میں ممبران کو رضامند کرنے کی کوشش کی کہ انتظامیہ کو 89 دن کے معاہدے یا وزٹنگ اسٹاف کو تعینات کرنے کا اختیار حاصل ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ 'یہ تقرریاں عملے کی کمی کو پورا کرنے کے لیے وقتی طور پر کی گئی تھی اور مستقل اسٹاف آنے کے بعد وزٹنگ اور معاہدے پر رکھے گئے ملازمین کو ہٹا دیا جاتا ہے، کیونکہ قانون میں اس کی گنجائش موجود ہے لہذا ان تقرریوں کو غیر قانونی قرار نہیں دیا جاسکتا'۔
تاہم مولانا گوہر کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر اکرام اللہ سچ چھپا رہے ہیں، انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان کے پاس بھاری تنخواہوں پر رکھے گئے افراد کے تقرری کے خطوط موجود ہیں۔
اس موقع پر اپنا لہجہ تبدیل کرتے ہوئے ڈاکٹر اکرام اللہ نے الزام عائد کیا کہ مولانا گوہر نے یہ سوال پارلیمنٹ میں اس لیے اٹھایا ہے کیونکہ وہ یونیورسٹی میں اپنے من پسند لوگوں کا تقرر چاہتے ہیں۔
ڈاکٹر اکرام اللہ نے ارکان کو خط دکھاتے ہوئے کہا کہ 'میرے پاس مولانا گوہر کا وہ لیٹر ہیڈ موجود ہے جس میں انہوں نے لوگوں کے نام بھیج کر انہیں ملازمت پر رکھنے کی ہدایت دی تھی، مولانا ماضی میں 13 افراد کو نوکریاں دلوا چکے ہیں اور اب مزید لوگوں کے تقرر کے لیے دباؤ ڈال رہے ہیں، وفاقی وزیرِ تعلیم کو اس معاملے سے آگاہ کیا جاچکا ہے'۔
اجلاس میں وزیر بلیغ الرحمٰن موجود تھے تاہم انہوں نے اس موقع پر خاموشی اختیار کیے رکھی۔
قائمہ کمیٹی کے چیئرمین ڈاکٹر عامراللہ مروت نے سوال کیا کہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر یا پرو چانسلر نے اجلاس میں شریک ہونے کی زحمت کیوں نہیں کی۔
ان کا کہنا تھا کہ کمیٹی کے اجلاس میں جونیئر حکام کو نہیں بھیجا جانا چاہیے۔
کمیٹی کے دیگر ممبران کا بھی کہنا تھا کہ وائس چانسلر کو اس اجلاس کا حصہ ہونا چاہیے تھا، انہوں نے ڈاکٹر اکرام کی جانب سے مولانا گوہر کا لکھا خط اجلاس میں دکھانے پر بھی تنقید کی۔
کمیٹی نے ڈاکٹر اکرام کو ہدایت دی کہ وہ اگلے اجلاس میں وائس چانسلر کی شرکت کو یقینی بنائیں۔
بعد ازاں ڈاکٹر اکرام نے ڈان کو بتایا کہ سابق وائس چانسلر کے دور میں مولانا گوہر نے 13 افراد کو باچا خان یونیورسٹی میں ملازمت دلوائی۔
انہوں نے کہا کہ 'مولانا مزید 7 افراد کے تقرر کے لیے فہرست بھیج چکے تھے، ہم ان کی ہدایت پر اتنے لوگوں کو ملازمت پر نہیں رکھ سکتے کیونکہ سیاسی تقرریوں والے افراد کام نہیں کرنا چاہتے'۔
انہوں نے الزام عائد کیا کہ مولانا اپنی سیٹ کا استعمال کرکے یونیورسٹی انتظامیہ پر دباؤ ڈالنا چاہتے ہیں۔
اجلاس میں شریک یونیورسٹی کے اسسٹنٹ رجسٹرار محمد داؤس نے ڈان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ قانون میں واضح طور پر موجود ہے کہ وائس چانسلر وقتی طور پر ملازمین کا تقرر کرسکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ 'ارکان پارلیمنٹ کو یونیورسٹی انتظامیہ پر تنقید کا کوئی حق نہیں، اگر انہیں کوئی اعتراض ہے تو وہ یونیورسٹی کا قانون تبدیل کریں جو وائس چانسلر کو تقرریوں کا اختیار دیتا ہے'۔
یہ خبر 21 جون 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔











لائیو ٹی وی