پاکستانی حکومت نے تاریخ میں پہلی بار ’مخنث پاسپورٹ‘ کا اجراء کرتے ہوئے پشاور سے تعلق رکھنے والی مخنث کو خصوصی پاسپورٹ جاری کردیا۔

مخنث پاسپورٹ کے اجراء کو تیسری جنس کے لوگ مثبت قدم کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔

خصوصی پاسپورٹ حاصل کرنے والی مخنث فرزانہ ریاض کا کہنا ہے کہ نیا پاسپورٹ انہیں دنیا بھر میں ایک مخنث کے طور پر اپنی صلاحیتیں منوانے میں مدد فراہم کرے گا۔

یہ بھی پڑھیں: کامی سد: پاکستان کی پہلی مخنث ماڈل

غیر ملکی خبر رساں ادارے’اے ایف پی‘ سے بات کرتے ہوئے فرزانہ ریاض نے اس بات کی تصدیق کی کہ انہیں خصوصی پاسپورٹ مل چکا ہے، جس پر جنس کے خانے میں مرد اور عورت کے بجائے ایکس درج ہے۔

انہوں نے بتایا کہ اس سے پہلے جو ان کے پاس پاسپورٹ تھا، اس میں ان کی جنس مرد کے طور پر درج تھی، اور اس کو لیتے وقت انہوں نے حکومتی عہدیداروں سے کہا تھا کہ انہیں اس وقت تک پاسپورٹ منظور نہیں ہے، جب تک اس میں جنس کے خانے میں مخنث نہیں لکھا جاتا۔

نیا پاسپورٹ حاصل کرنے کے بعد فرزانہ ریاض نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اب وہ دنیا بھر میں کسی بھی پریشان کے بغیر سفر کرسکتی ہیں،پہلے انہیں کئی عالمی ایئرپورٹس پر مسائل کا سامنا رہتا تھا، کیوں ان کی جسمانی ساخت اور پاسپورٹ میں درج جنس میں فرق ہوتا تھا۔

خیال رہے کہ فرزانہ ریاض ٹرانز ایکشن نامی مخنث تنظیم کی صدر بھی ہیں، جو مخنث افراد کے حقوق سے متعلق کام کرتی ہے۔

پاکستان میں پہلی بار 2009 میں مخنث افراد کو تیسری جنس کے طور پر تسلیم کیا گیا تھا، اس وقت سپریم کورٹ نے مخنث افراد کو تیسری جنس کے طور پر پیدائشی سرٹیفکیٹ سمیت شناختی کارڈ جاری کرنے کا حکم دیا تھا۔

مزید پڑھیں: مخنث کے روپ میں چھپی ماں

پاکستان میں مخنث افراد کی حتمی تعداد کا تو کوئی سرکاری ریکارڈ موجود نہیں، تاہم مختلف رپورٹس کے مطابق ملک میں مخنث افراد کی تعداد 5 لاکھ کے قریب ہے۔

مخنث افراد زیادہ تر شادی بیاہ سمیت دیگر پارٹیوں میں رقص کا مظاہرہ کرکے اپنا گزر کرتے ہیں، جب کہ کچھ گداگری بھی کرتے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں