سابق وزیرِ داخلہ اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما چوہدری نثار علی خان کا کہنا ہے کہ فوج اور عدالتوں کے ساتھ محاذ آرائی سے سیاسی مقاصد حاصل نہیں کیے جا سکتے۔

ایک نجی ٹیلی ویژن سے بات چیت کرتے ہوئے سابق وزیر داخلہ نے کہا کہ جہاں ملک کے خلاف سازشیں کی جارہی ہوں وہاں فوج اور عدالتوں کے ساتھ بہتر روابط ہی صورتحال کو قابو میں رکھنے کا واحد راستہ ہیں۔

پاناما پیپرز کیس کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ’میں ن لیگ کے کچھ رہنماؤں کی تجاویز کے خلاف تھا جو نواز شریف اور اداروں میں محاذ آرائی چاہتے تھے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ پارٹی پالیسی معاملات میں پارٹی کے سربراہ میاں محمد نواز شریف سے بہت مختلف ہیں۔

مزید پڑھیں: چوہدری نثار اور وزیراعظم میں 'دوریاں'

انہوں نے انکشاف کیا کہ پالیسی کے حوالے سے ان کے سابق وزیراعظم نواز شریف کے ساتھ اختلافات تھے کیونکہ پارٹی میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو چاہتے ہیں کہ نواز شریف ریاستی اداروں کے ساتھ محاذ آرائی کریں۔

چوہدری نثار نے بتایا کہ نواز شریف کے ساتھ ان کے تعلقات 1985 سے ہیں اور 2013 تک دونوں رہنماؤں کے مابین اختلافات کے بارے میں کوئی نہیں جانتا تھا۔

انہوں نے یہ بھی بتایا کہ سابق وزیر اعظم کے ساتھ ان کے اکثر اختلافات پارٹی پالیسی پر تھے، لہٰذا انہوں نے خود کو پارٹی کے مشاورتی اجلاس سے علحیدہ رکھنے کا فیصلہ کیا۔

چوہدری نثار نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ انہوں نے نواز شریف کے ساتھ اپنے اختلافات کو عوامی سطح پر ظاہر نہیں کیا، تاہم جن لوگوں نے ان اختلافات کی خبروں کو لیک کیا انہوں نے ن لیگ کے ساتھ بد دیانتی کا مظاہرہ کیا۔

یہ بھی پڑھیں: پاناما کیس کے فیصلے کو سیاست کی بھینٹ نہیں چڑھنا چاہیے: نثار

سابق وزیر داخلہ نے کہا کہ سیاست کرنا اور بالخصوص حکومت کرنا ایک فن اور سائنس ہے اور وزیر کی حیثیت میں انہوں نے نواز شریف کے ساتھ چیزوں کو احسن طریقے سے سنبھالنے کی کوشش کی۔

پاناما پیپرز کیس میں سپریم کورٹ کی جانب سے نواز شریف کو نااہلی قرار دیئے جانے کے فیصلے پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ انہیں یقین ہے کہ نواز شریف کی نااہلی کے پیچھے فوج کا کوئی کردار نہیں۔

پاکستان کے خلاف بین الاقوامی دباؤ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ پاکستان میں تمام اسٹیک ہولڈر کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے تمام تر اختلافات بھلائیں تاکہ پاکستان کے دشمنوں کے خلاف متحد ہو کر لڑسکیں۔

کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے سربراہ حکیم اللہ محسود کی ہلاکت پر اپنے تنقیدی بیان کی تردید کرتے ہوئے چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کی وجہ سے ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کے عمل کو شدید نقصان پہنچا اس لیے انہوں نے امریکا کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔

مزید پڑھیں: نواز شریف کی ریلی میں چوہدری نثار کی عدم شرکت

انہوں نے واضح کیا کہ پاکستان نے امریکا اور اپنے دوست ممالک کو اعتماد میں لینے کے بعد کالعدم ٹی ٹی پی سے بات چیت کا عمل شروع کیا تھا جبکہ اس حوالے سے یہ تاثر بھی غلط ہے کہ پاکستان آرمی اس معاملے میں شامل نہیں تھی۔

اپنی نظر بندی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جب وہ نظر بند تھے تو 24 فوجی ان کے گھر کے باہر تعینات تھے تاہم یہ تاثر دینا غلط ہے کہ ان کے خاندان کے فوج سے تعلقات ہونے کی وجہ سے ان کے ساتھ ترجیحی سلوک روا رکھا گیا۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ ایان علی کے منی لانڈرنگ کیس کو وزارت داخلہ نے نہیں بلکہ وزارت خزانہ نے دیکھا تھا۔


یہ خبر 10 ستمبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں