لاہور ہائی کورٹ نے سول ایوی ایشن اتھارٹی سے ترک خاندان کو بیرون ملک بھجوانے کی تفصیلات طلب کرتے ہوئے توہین عدالت کی درخواست پر وفاق کو نوٹس جاری کردیئے۔

عدالتی احکامات کے باوجود پاک ترک اسکول اینڈ کالجز سسٹم سے منسلک ترک خاندان کو ملک بدر کرنے پر سیکرٹری وزارت داخلہ کے خلاف توہین عدالت کی درخواست پر لاہور ہائی کورٹ نے سماعت کی جس میں درخواست گزار نے موقف اختیار کیا کہ عدالت ترک خاندان کے افراد کو تحفظ فراہم کرنے کا حکم دے چکی تھی۔

درخواست میں مزید کہا گیا کہ عدالتی احکامات کے باوجود ترک خاندان کو ملک بدر کرنا توہین عدالت کے زمرے میں آتا ہے۔

درخواست میں عدالت سے استدعا کی گئی کہ وہ سیکرٹری وزارت داخلہ کے خلاف توہین عدالت کے تحت کارروائی کا حکم دے، جس پر عدالت نے توہین عدالت کی استدعا منظور کرتے ہوئے وفاقی حکومت کو نوٹس جاری کر دیے۔

لاہور ہائیکورٹ کے باہر میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے مذکورہ کیس کی وکیل عاصمہ جہانگیر نے بتایا کہ عدالت نے حکم دیا تھا کہ ترک خاندان کے نام ای سی ایل میں ڈالے جائیں لیکن پورے خاندان کو پاسپورٹ کے بغیر ہی ملک بدر کر دیا گیا۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ پاکستان میں جنگل کا قانون رائج نہیں ہونے دیں گے جبکہ ایک بادشاہ دوسرے بادشاہ کو خوش کرنے میں لگا ہوا ہے۔

اس سے قبل ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق گذشتہ روز لاہور ہائی کورٹ نے ترک خاندان کے مبینہ اغوا کے کیس کی سماعت کے دوران وفاقی حکومت کے وکیل کو ہدایات جاری کی تھیں کہ وہ پاک ترک انٹرنیشنل اسکول اینڈ کالجز کے سابق نائب صدر اور ان کے اہل خانہ کے ملک بدر کیے جانے کی تصدیق کریں۔

عدالت عالیہ کے جج جسٹس شمس محمود مرزا نے میسوت کاجماز اور ان کے اہل خانہ کے مبینہ اغوا کیس کی سماعت کی تھی۔

کیس کی سماعت کے دوران پٹیشنر کی جانب سے ایڈووکیٹ عثمان ملک عدالت میں پیش ہوئے اور بتایا کہ پٹیشنر کی وکیل عاصمہ جہانگیر ضرروی مصروفیات کی وجہ سے عدالت میں پیش نہیں ہوسکیں۔

تاہم، انہوں نے میڈیا رپورٹس کے حوالے سے بتایا کہ پاکستانی حکام کی جانب سے مغوی ترک خاندان کو ملک بدر کردیا گیا ہے، جب عدالت نے اس حوالے سے ڈپٹی اٹارنی جنرل سے استفسار کیا تو انہوں نے لاتعلقی کا اظہار کیا۔

مزید پڑھیں: لاپتہ ترک خاندان ملک بدر کردیا گیا

جسٹس محمود مرزا نے کیس کی سماعت ایک روز کے لیے ملتوی کرتے ہوئے مذکورہ معاملے میں حالیہ پیش رفت کے حوالے سے حکومت کا موقف معلوم کرنے کی ہدایت کی۔

واضح رہے کہ اس سے قبل عدالت نے حکومت کو ہدایت کی تھی کہ جب تک کیس کا فیصلہ نہیں ہوجاتا وہ میسوت کاجماز اور ان کے خاندان کو ملک بدر نہیں کرسکتے۔

ترک خاندان کے اغوا کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں پٹیشن میسوت کاجماز کے ایک دوست نے دائر کی تھی، جس میں کہا گیا تھا کہ ترک اسکول اینڈ کالجز سسٹم کے سابق نائب صدر، ان کی اہلیہ اور دو بیٹیوں کو نامعلوم افراد نے 27 سمتبر کو لاہور کے واپڈا ٹاؤن سے مبینہ طور پر اغوا کیا۔

پٹیشنر کے وکیل نے استدعا کی تھی کہ حکومت نے اٹارنی جنرل کے ذریعے عدالت میں گذشتہ سال حلف نامہ جمع کرایا تھا کہ پاک ترک اسکول نظام کے ترک ملازمین کو 24 نومبر 2017 تک ملک بدر نہیں کیا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں: پاک-ترک اسکول سسٹم کے سابق نائب صدر اہلِ خانہ سمیت 'اغوا'

پٹیشنر کا کہنا تھا کہ عدالت میں جمع کرائے گئے حلف نامے کے باوجود میسوت کاجماز اور ان کے اہل خانہ کو نامعلوم افراد نے ان کے گھر سے مبینہ طور پر اغوا کیا اور بعد ازاں انہیں ملک بدر کردیا گیا جو عدالتی احکامات کی خلاف ورزی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ پولیس نے اس اغوا کی رپورٹ درج کرنے سے انکار کیا تھا۔

پٹیشنر کا کہنا تھا کہ ترکی کے تدریسی عملے کو اقوام متحدہ کے کمیشن برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) کے تحت پاکستان میں تحفظ کے لیے پناہ گزین کی حیثیت حاصل تھی۔

گذشتہ روز ترک خاندان کو ملک بدر کیے جانے کی خبریں منظر عام پر آنے کے بعد پاک-ترک اسکول کے سابق ریجنل ڈائریکٹر اورہان نے ڈان کو بتایا تھا کہ میسوت کاجماز کی بیٹی نے انہیں کراچی سے بذریعہ ٹیلی فون اطلاع دی کہ ان کے والدین کو 14 اکتوبر کو اسلام آباد سے ملک بدر کردیا گیا۔

مزید پڑھیں: پاک-ترک اسکولوں کا عدالت سے رجوع

انہوں نے مزید کہا کہ مذکورہ فیملی کو اسلام آباد ہوائی اڈے پر ترک پولیس کے حوالے کیا گیا جو خصوصی طیارے سے پاکستان پہنچے تھے۔

اورہان نے بتایا کہ میسوت کاجماز کی بیٹی کراچی سے ترکی روانہ ہوچکی ہیں جو ترکی میں اپنے دادا اور دادی کے ہمراہ رہیں گی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں