اسلام آباد: پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے (سی پیک) کے تحت زیر تعمیر سڑکوں کے منصوبوں میں بے ضابطگیوں کا انکشاف ہوا ہے جس پر پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) سے تعلق رکھنے والی سینیٹر شیری رحمٰن نے تحریک التوا سینیٹ سیکرٹریٹ میں جمع کرادی۔

تحریک التوا میں الزام لگایا گیا ہے کہ وفاقی حکومت کی جانب سے شاہراہوں کی تعمیر کے منصوبوں میں 400 ارب کی بے ضابطگیاں ہوئی ہیں۔

شیری رحمٰن کا کہنا تھا کہ آڈیٹر جنرل نے اپنی رپورٹ میں شاہراہوں کی تعمیر میں بے ضابطگیوں کا انکشاف کیا اور ان منصوبوں میں بے ضابطگیوں کی نشاندہی کی جو سی پیک کے تحت شروع ہوئے ہیں۔

مزید پڑھیں: 'سی پیک کے تحفظ کیلئے 15 ہزار فوجی اہلکار تعینات'

پی پی پی کی سینیٹر نے معاملے کی تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا کہ اہم منصوبوں میں بے ضابطگیوں کا معاملہ تشویشناک ہے۔

سی پیک کے تحفظ کے لیے فوج کی 35 ویں ڈویژن فورس

دوسری جانب سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے مواصلات کو بتایا گیا ہے کہ سی پیک کی حفاظت کے لیے فوج کی 35 ویں ڈویژن فورس بنا دی گئی ہے اور 9 ہزار 229 جوان سی پیک کی حفاظت کے لیے مامور ہوں گے۔

کمیٹی نے پاک چین اقتصادی راہداری کے تحت جاری منصوبوں کے ٹھیکے چینی کمپنیوں کو دیے جانے پر تحفظات کا اظہار کیا۔

یہ بھی پڑھیں: 'پاک بحریہ سی پیک کو درپیش خطرات سے نمٹنے کیلئے تیار'

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے مواصلات کا اجلاس ہوا جس میں شرکاء کو بتایا گیا ہے کہ سی پیک کی حفاظت کے لیے اقدامات کو حتمی شکل دے دی گئی ہے۔

این ایچ اے حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ فوج کی 35 ویں ڈویزن فورس بنا دی گئی جس کے چھ ونگ ہوں گے جن میں 3 پنجاب رینجرز اور ایک ایک ایف سی بلوچستان اور کے پی کے پر مشتمل ہے، جس کے تحت 9 ہزار 229 جوان سی پیک کی حفاظت کے لیے مامور ہوں گے۔

چیئرمین این ایچ اے نے اجلاس کے شرکاء کو بتایا کہ رواں سال لیاری ایکسپریس وے کا افتتاح کر دیا جائے گا جبکہ خضدار رتو ڈیرو موٹروے کا سیکشن بھی اسی سال مکمل کیا جائیگا۔

ادھر آئی جی موٹروے پولیس نے کمیٹی کو بتایا کہ موٹروے پولیس میں اگلے تین سالوں کے دوران 11 ہزار 900 اہلکار بھرتی کیے جائیں گے اور بھرتیوں میں مقامی افراد کو ترجیح دی جائے گی جبکہ موٹروے پولیس اہلکاروں کو سی پیک کی حفاظت کے لیے خصوصی تربیت دی جائے گی۔

دوسری جانب قائمہ کمیٹی برائے مواصلات کے ارکان نے پاک چین اقتصادی راہداری کے ٹھیکے چینی کمپنیوں کو دیے جانے پر تحفظات کا اظہار کیا۔

مزید پڑھیں: سی پیک سے ہمیں کتنے فوائد حاصل ہوں گے؟

سینیٹر کامل علی آغا کا کہنا تھا کہ سی پیک کے جاری منصوبوں میں ملکی کمپنیوں کو بھی شامل کیا جانا چاہیے جبکہ چیئرمین کمیٹی داود خان اچکزئی کا کہنا تھا کہ پاک چین اقتصادی راہداری کے مغربی روٹ کے ترقیاتی منصوبوں کو نظر انداز کیا جا رہا ہے اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے فنڈز سے تعمیر ہونے والی پرانی شاہراہوں کو سی پیک کا حصہ قرار دیا جا رہا ہے۔

اس کے علاوہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے مواصلات نے آغاز حقوق بلوچستان کی 171 منظور شدہ اسامیاں پر ساڑھے چار سال گزرنے کے باوجود بھرتیاں نہ ہونے پر بھی تحفظات کا اظہار کیا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں