پنجاب کے ضلع رحیم یار خان کے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج نے انٹرنیٹ پر توہین آمیز مواد شائع کرنے کا جرم ثابت ہونے پر مجرم کو عمر قید کی سزا سنادی۔

ضلع کے پولیس افسر عمر سلیم کے ترجمان نے ڈان کو صادق آباد کے صدر تھانے کے اسٹیشن ہاؤس افسر (ایس ایچ او) عبدالہادی کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ وقاص احمد بھیٹ نامی نوجوان کے خلاف گزشتہ سال جولائی میں شکایت درج کی گئی تھی۔

شکایت میں وقاص احمد پر سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک پر توہین آمیز خاکے شائع کرنے کا الزام لگاتے ہوئے موقف اختیار کیا گیا تھا کہ اس سے مسلمانوں کے جذبات و احساسات مجروح ہوئے۔

شکایت کے کچھ روز بعد نوجوان کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا جبکہ ٹرائل کا آغاز دو ماہ قبل ہوا۔

ملزم وقاص احمد بھیٹ کو ضلعی انتظامیہ کی ہدایت پر 90 روز کے لیے سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر ڈسٹرکٹ جیل میں نظر بند بھی رکھا گیا تھا، جبکہ مقدمے کی حساسیت کے باعث سماعت بھی جیل میں کی گئی۔

یہ بھی پڑھیں: 'توہین صحابہ' کے الزام میں ایک شخص کے خلاف مقدمہ

ہفتہ کے روز ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج خورشید احمد انجم نے مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے وقاص احمد بھیٹ کو عمر قید اور 10 لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی۔

واضح رہے کہ رواں سال جون میں بہاولپور کی انسداد دہشت گردی کی عدالت (اے ٹی سی) نے سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد شائع کرنے کے جرم میں ایک شخص کو سزائے موت سنائی تھی۔

حکومتی وکیل کے مطابق اے ٹی سی کےجج شبیر احمد نے 30 سالہ شخص کو سزائے موت سنائی۔

کاؤنٹرٹیرارزم ڈپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) نے ملزم کو گزشتہ سال بہاولپور سے گرفتار کیا تھا اور ملتان پولیس اسٹیشن میں اس کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

سوشل میڈیا پر گستاخی پر سزائے موت جیسی سنگین سزا سنائے جانے کا یہ پہلا موقع تھا۔

قبل ازیں جون 2016 میں گجرانوالہ کی انسداد دہشت گردی عدالت (اے ٹی سی) نے توہین رسالت کے قانون کے تحت دو عیسائیوں اورایک مسلمان کو سزائے موت سنائی تھی۔

مزید پڑھیں: توہین رسالت: دو عیسائیوں سمیت 3 افراد کو سزائے موت

اے ٹی سی گجرانوالہ کی جج بشرا زمان نے توہین رسالت کا الزام ثابت ہونے پر مسیح انجم ناز سندھو، مسیح جاوید ناز اور ایک مسلمان جعفر علی کو سزائے موت سنائی جبکہ مسیح جاوید ناز اور جعفر علی کو 35 سال قید کی اضافی سزا بھی سنائی۔

عدالت نے انجم ناز سندھو پر 50 لاکھ روپے جبکہ جاوید ناز اور جعفر علی پر 80 لاکھ روپے فی کس جرمانہ بھی عائد کیا۔

خیال رہے کہ رواں سال کے آغاز میں مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی میں شعبہ ابلاغ عامہ کے طالب علم مشال خان کو مبینہ طور پر توہین مذہب کے الزام پر بے دردی سے قتل کیا گیا تھا۔

مشال خان کی ہلاکت کے بعد پورے ملک میں یہ معاملہ زیربحث رہا تھا اور کئی حلقوں کی جانب سے توہین مذہب کے قانون میں تبدیلی کی گونج سنائی دی تھی جبکہ مشال خان کی ہلاکت پر تشکیل دی گئی جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) نے اپنی رپورٹ بھی پیش کردی جس میں انھیں توہین مذہب سے بری قرار دیا گیا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں