لاہور: پاکستان مسلم لیگ (ن) کی اعلیٰ قیادت نے سابق وزیرِاعظم نواز شریف کی 2018 کے عام انتخابات سے قبل قومی اسمبلی کی رکنیت کی نااہلی ختم نہ ہونے کی صورت میں شہباز شریف کو انتخابات میں فتح کے بعد وزارتِ عظمیٰ کے لیے سامنے لانے کا فیصلہ کرلیا۔

لندن میں مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں نواز شریف کی زیرِ صدارت پارٹی کی اعلیٰ قیادت کا اجلاس منعقد ہوا جس میں وزیرِاعظم شاہد خاقان عباسی، وزیرِاعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف، وفاقی وزیرِ خزانہ اسحٰق ڈار، وزیرِ خارجہ خواجہ آصف اور وزیرِ داخلہ احسن اقبال نے شرکت کی۔

حکمراں جماعت کی اعلیٰ قیادت کا یہ فیصلہ پاکستان کے ایک اردو اخبار میں شائع ہونے والے ’قومی رائے سروے‘ کے نتائج پر اتفاق کرتے ہوئے کیا گیا جس کے مطابق پاکستان کے 60 فیصد عوام شہباز شریف کو مستقبل میں پاکستان کا وزیرِاعظم دیکھنا چاہتے ہیں۔

ایک امریکی ادارے ’گلوبل اسٹریٹجک پارٹنر‘ کی جانب سے کیے جانے والے سروے کے مطابق پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سربراہ عمران خان 47 فیصد رائے کے ساتھ وزارتِ عظمیٰ کے لیے دوسرے بہترین انتخاب ہیں۔

مزید پڑھیں: ‘کوئی مائنس نواز فارمولا نہیں اپنایا جارہا’

مسلم لیگ (ن) کے ایک سینئر رہنما نے اپنا نام نہ ظاہر کرنے کی درخواست پر ڈان کو بتایا کہ شہباز شریف کو سامنے لانے کا فیصلہ نواز شریف کی پاناما پیپرز کیس میں سپریم کورٹ کی جانب سے نااہلی کے فیصلے کی وجہ سے کیا گیا جس کے مطابق اگر نواز شریف کی نااہلی ختم نہیں ہوئی تو شہباز شریف آئندہ انتخابات کے لیے پارٹی کی جانب سے وزارتِ عظمیٰ کے لیے نامزد کیے جائیں گے۔

ادھر وزیر اعلیٰ شہباز شریف کے قریبی لیگی رہنما نے بتایا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب، سابق وزراعظم نواز شریف کی نااہلی کے بعد سے ہی وزارتِ عظمیٰ کا قلمدان سنبھالنے کے لیے پارٹی کے امیدوار ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ شہباز شریف کو وزارت عظمیٰ سنبھالنے کے لیے نامزد کیا گیا تھا تاہم پارٹی قیادت کی جانب سے یہ فیصلہ اس وقت واپس لے لیا گیا جب پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ کے متعدد اُمیدوار سامنے آئے تھے۔

انہوں نے بتایا کہ پارٹی کے مضبوط ترین صوبے میں وزارتِ اعلیٰ کے قلمدان کے لیے لیگی دھڑوں میں اختلافات پیدا ہونے کا خدشہ تھا۔

یہ بھی پڑھیں: شاہد خاقان عباسی کی لندن روانگی سے ’وزیر اعظم ہاؤس لاعلم‘

تاہم انہوں نے شہباز شریف کو اہم کردار دینے کے لیے پارٹی میں کسی بھی طرح کے علیحدہ علیحدہ نقطہ نظر کی بھی تردید کردی۔

خیال رہے کہ لندن میں لیگی قیادت کے اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے پاناما کیس کے حوالے سے دیئے جانے والے فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے نواز شریف کا کہنا تھا کہ ’اس کیس میں کچھ بھی شفاف نہیں، اگر یہ سماعت منصفانہ ہوتیں تو مجھے اقامہ پر نہیں پاناما پر نکالا جاتا‘.

پارٹی کی اعلیٰ قیادت کے اجلاس کے دوران 2018 میں ہونے والے عام انتخابات اور نواز شریف اور ان کے اہل خانہ پر کیسز بھی زیر بحث آئے۔

وزیرِاعظم شاہد خاقان عباسی اور وزیرِاعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے بھی اجلاس کے بعد ملے جلے ردِعمل کا اظہار کیا۔


یہ خبر یکم نومبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں