لکھاری نئی دہلی میں ڈان کے نمائندے ہیں۔
لکھاری نئی دہلی میں ڈان کے نمائندے ہیں۔

اپنی شہرت کے عروج کے عرصے میں جنوبی ایشیا کے دو عظیم ترین سیاستدان اور ایک دوسرے کے شدید مخالف بالکل یکساں ذاتی صدمے سے نمٹنے کی کوشش کر رہے تھے، اور وہ مسئلہ تھا ان کے پارسی داماد۔ ایک کشمیری برہمن اور ایک کھوجہ مسلم، نہرو اور جناح 1930 اور 1940 کی دہائیوں میں زبان زدِ عام نام بن چکے تھے۔ ان دونوں کو اپنی بیٹیوں سے بے پناہ محبت تھی مگر ان کے داماد انہیں دکھ دینے والے تھے۔ دونوں ہی رہنما سیکولر تھے، مگر اس پردے کے پیچھے ایک قدامست پسندی چھپی تھی جو اس وقت سامنے آئی جب ان کی بیٹیوں نے ایک اور ثقافت میں شادی کرنے کا فیصلہ کیا۔

اس کا پس منظر بھی اتنا ہی واضح تھا۔ نہرو اپنے کثیر النوعی خیالات کے باوجود غالب بیانیے سے متفق تھے کہ ہندو اکثریتی ہندوستان کو مسلم وزیرِ اعظم قابلِ قبول نہیں ہوگا۔ لبرل شخصیت رکھنے والے خوش پوش جناح مانتے تھے کہ اگر ہندو بالادستی ختم ہوجائے تو ہندوستانی مسلمان اپنا سیکولر ملک قائم کر سکیں گے جو کہ ایک سیکولر جمہوریت کے سخت ترین معیارات کے مطابق ہوگا جس سے دونوں رہنماؤں کا بطور طالبِ علم انگلینڈ میں سامنا ہوا تھا۔ بھربھری بنیادوں پر جاری جدوجہد کے راستے میں ثقافتی اور مذہبی قدامت پسندی کس طرح روڑے اٹکائے گی، اس کا حساب ان دونوں رہنماؤں نے غلط لگایا تھا۔ لبرل پرورش پانے والے ان رہنماؤں کا اپنے پارسی دامادوں کے ساتھ گھلنا ملنا مشکل نہیں ہونا چاہیے تھا، مگر انہیں بے چینی کے سوا کچھ نہ ملا۔

جناح کی واحد بیٹی دینا نے 1938 میں نیول واڈیا سے شادی کر لی۔ نہرو کی اکلوتی اولاد اندرا نے 1942 میں فیروز گاندھی سے شادی کر لی۔ دینا نیویارک میں 2 نومبر کو 98 سال کی عمر میں وفات پا گئیں۔ وہ اندرا سے دو سال چھوٹی تھیں جنہیں 67 سال کی عمر میں 1984 میں قتل کر دیا گیا تھا۔

پڑھیے: قائد اعظم کے اپنی بیٹی دینا سے تعلقات کیسے تھے؟

دونوں نے اپنے والدین کی مرضی کے خلاف محبت کی شادیاں کیں، اور دونوں اپنے شوہروں کے ساتھ زیادہ نہیں رہ پائیں۔ دینا شادی کے پانچ سال بعد اور اندرا اس سے کچھ عرصے بعد اپنے شوہر سے الگ ہوگئیں۔ دونوں کے ہی دو بچے تھے۔ دینا اور نیول کا ایک بیٹا نصلی اور ایک بیٹی ڈیانا تھی۔ یہ جوڑا 1943 میں علیحدہ ہوگیا تھا مگر باقاعدہ طلاق کبھی نہیں ہوئی۔

اندرا اور فیروز گاندھی کے دو بیٹے راجیو اور سنجے گاندھی تھے۔ ان کے باہمی اختلافات نے ان کی 60 کی دہائی کی سیاست میں کردار ادا کیا یہاں تک کہ فیروز 48 سال کی عمر میں چل بسے۔

دونوں نے اپنے والدین کی مرضی کے خلاف محبت کی شادیاں کیں، اور دونوں اپنے شوہروں کے ساتھ زیادہ نہیں رہ پائیں۔

سوئیڈش صحافی برٹل فاک، جنہوں نے دہلی میں فیروز گاندھی پر اپنی تازہ کتاب پر حال ہی میں بات کی، کے مطابق نہرو کے داماد نایاب جمہوریت پسند تھے۔ سحر انگیز اور پرعزم شخصیت اور ذہانت رکھنے والے فیروز کی حسِ مزاح دلآویز تھی جبکہ سچائی اور غریبوں کی فلاح کے لیے ان کا عزم بھی پختہ تھا۔ انہوں نے اندرا کے سخت مزاج قائدانہ انداز کو شروع میں ہی پہچان لیا تھا اور انہیں خبردار کیا تھا کہ مطلق العنانیت کی جانب نہ جائیں۔ فاک کے مطابق "جب نہرو نے 1959 میں اندرا کے دباؤ میں آ کر کیرالہ کی کمیونسٹ حکومت کو ختم کر دیا تو فیروز اور اندرا کی سخت لڑائی ہوئی۔"

وہ کہتے ہیں کہ یہ معاملہ وزیرِ اعظم کی رہائش گاہ 'تین مورتی بھون' میں ناشتے کی میز پر زیرِ بحث آیا۔ اس وقت رائے بریلی سے کانگریس کے رکنِ پارلیمنٹ فیروز نے مبینہ طور پر اندرا سے کہا تھا: "یہ بالکل بھی درست نہیں ہے۔ تم لوگوں کو ہراساں کر رہی ہو۔ تم فاشسٹ ہو۔"

پڑھیے: قائداعظم کی بیٹی دینا واڈیا چل بسیں

فاک لکھتے ہیں کہ نہرو پریشان نظر آئے مگر غصے میں بھری اندرا نے جوابی حملہ کیا: "تم مجھے فاشسٹ کہہ رہے ہو؟ میں یہ برداشت نہین کر سکتی۔" فاک کہتے ہیں کہ انہوں نے یہ واقعہ فیروز کے قریبی دوست و سینیئر صحافی نکھل چکرورتی سے سنا۔

فاک لکھتے ہیں، "فیروز نے نکھل کو بتایا کہ انہوں نے اندرا گاندھی اور جواہر لعل نہرو سے کیرالہ کے بارے میں احتجاج کرتے ہوئے کہ ا تھا کہ فاشزم کیرالہ تک آ پہنچے گا۔ اندرا اس پر آگ بگولہ ہوگئیں اور کہا، "تمہارا مطلب ہے کہ میں فاشسٹ ہوں؟" اور تیزی سے کمرے سے باہر نکل گئیں۔" فاک کے مطابق اندرا نہرو کو کمزور فیصلہ لینے کی قوت سے عاری سمجھتی تھیں۔

اندرا گاندھی نے اپنی امریکی دوست ڈوروتھی نورمن کو لکھا تھا کہ "انہوں (نہرو) نے شروع سے بہت زبردست قیادت کی ہے مگر وہ آمریت یا اپنے سینیئر ساتھیوں کی رائے کو سختی سے مسترد کرنے کے قابل نہیں ہیں۔"

ناشتے کی میز پر ہونے والی اس لڑائی کے بعد فیروز نے پارلیمنٹ میں کانگریس کے ارکانِ پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے کمیونسٹوں کا اثر ختم کرنے کے لیے اندرا کے بھڑکانے پر چرچ، (ہندوستانی) مسلم لیگ اور نائر سروس سوسائٹی کو قابو میں لانے کے اقدامات پر سوال اٹھایا۔

فاک کے مطابق فیروز نے کہا کہ، "کانگریس کہاں ہے؟ کانگریس کے اصول کہاں ہیں؟ کیا ہم اپنے بنائے ہوئے ذات پات کے عفریت کے احکامات پر چلیں گے؟"

جب دینا نے نیول سے شادی کی تو باوجود اس کے کہ انہوں نے خود بھی ایک پارسی (جنہوں نے اسلام قبول کر لیا تھا) سے شادی کی تھی، جناح غصے سے آگ بگولہ ہوگئے تھے۔

اپنی کتاب، مسٹر اینڈ مسز جناح: دی میرج دیٹ شوک انڈیا، میں مصنفہ شیلا ریڈی لکھتی ہیں کہ جناح نے دینا کی نیول سے شادی کو سنگین سیاسی بدنامی کے طور پر دیکھا۔

پڑھیے: پریتی زنٹا کو دینا واڈیا کے انتقال پر افسوس

ریڈی لکھتی ہیں، "انہوں نے انہیں (دینا) کو اس بات سے ہٹانے کی کوشش کی مگر جب انہیں اس پر قائم پایا، تو انہیں قطع تعلق کی دھمکی دے دی۔ مگر انہوں نے بھی جھکنے کے بجائے اپنی نانی کے گھر کا رخ کر لیا اور اس شادی کو آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا۔" وہ مایہ ناز افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کے حوالے سے کہتی ہیں کہ جناح نے دینا کے اس اختلاف کا بہت برا اثر لیا۔ منٹو لکھتے ہیں کہ "دو ہفتوں تک وہ کسی سے نہیں ملے۔ وہ بس سگار پیتے اور اپنے کمرے میں تیز اور آہستہ چلتے پھرتے رہتے۔ انہوں نے ان دو ہفتوں میں سینکڑوں میل لیا ہوگا۔"

کہا جاتا ہے کہ دینا اور نیول 1943 میں الگ ہوگئے تھے مگر باقاعدہ طلاق کبھی بھی نہیں ہوئی۔ جب 1941 میں افواہ پھیلی کہ جناح اپنا بمبئی والا گھر فروخت کر رہے ہیں تو دینا نے "پیارے پاپا" کے نام طویل خاموشی کے بعد ایک خظ لکھا۔

28 اپریل 1941 کو لکھا گیا یہ خط ریڈی نے اپنی کتاب میں نقل کیا ہے۔ لکھا ہے کہ: "سب سے پہلے میں آپ کو پاکستان حاصل کرنے پر مبارکباد پیش کرنا چاہتی ہوں، یعنی کم از کم اصولی طور پر اس کو تسلیم کر لیا گیا ہے۔ مجھے آپ پر فخر اور آپ کے لیے خوشی ہے۔ آپ نے اس کے لیے بہت زیادہ محنت بھی کی ہے۔"

پھر دینا اپنی بنیادی دلچسپی کے امر پر آتے ہوئے لکھتی ہیں: "میں نے سنا ہے کہ آپ نے 'جنوبی صحن' دالمیا کو 20 لاکھ روپے میں فروخت کر دیا ہے۔ یہ بہت زبردست قیمت ہے اور آپ بہت خوش ہوں گے۔ اگر آپ نے (اسے) فروخت کر دیا ہے تو میں آپ کو ایک مشورہ دینا چاہتی ہوں۔ اگر آپ اپنی کتابیں منتقل نہیں کر رہے تو میں رتی کی چند پرانی شاعری کی کتابیں — بائرن، شیلی اور آسکر وائلڈ کی سیریز کی کتابیں لے سکتی ہوں؟"

جناح کا جواب بس گھر کی فروخت کو ایک "بے بنیاد افواہ" قرار دینے تک محدود تھا۔

انگلش میں پڑھیں۔

تبصرے (2) بند ہیں

Mohammad Baig Nov 12, 2017 02:36pm
Great coverage of history with fact finding.
Mohammad Baig Nov 12, 2017 02:39pm
A few people know this reality especially about the Feroze Gandhi as a progressive and a well versed politician.Indra perhaps could not prove the true successor of her father.