اگر آپ بھی بہتر شعبے اور نوکری حاصل کرنے کی خواہش رکھتے ہیں تو ڈان بلاگز آپ کے لیے ’بلاگ سیریز‘ شروع کررہا ہے، جس میں تمام مسائل کا حل پیش کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ یہ سیریز کا پہلا بلاگ ہے۔


’آپ نے کون سی انجینیئرنگ کی ہے؟‘

’جی میں ایک الیکٹرونکس انجینیئر ہوں۔‘

’اور آپ کس پیشے سے وابستہ ہیں؟‘

’جی ایک انشورنس کمپنی میں جاب کرتا ہوں۔‘

’کیا انشورنس اور الیکٹرونکس انجینئرنگ کا کوئی تعلق بنتا ہے؟‘ میں نے سوال کیا۔

’سر، گھر چلانے کے لیے پیسوں کا تعلق بنتا ہے۔‘ ایک مسکراتا ہوا جواب ملا۔

اِسی طرح ایک دوسرے دوست جو سافٹ ویئر انجینیئرنگ کرنے کے بعد آج کل سافٹ اسکل ٹریننگ سے وابستہ ہیں، ان سے پوچھا: ’آپ کی سافٹ ویئر انجینیئرنگ کا کیا ہوگا؟‘

جواب ملا، اصولاً تو سافٹ ویئر انجینیئرنگ میری فیلڈ ہی نہیں تھی۔ شروع میں کسی نے مناسب رہنمائی نہیں کی جس کی وجہ سے میں نے یہاں داخلہ لے لیا تھا۔ بعد ازاں ہر گزرتے دن کے ساتھ اِس میں دلچسپی کم ہونے لگی اور اب تو یہ عالم ہے کہ سافٹ اسکلز ٹریننگ کے علاوہ کوئی اور کام کرنے کا دل نہیں کرتا۔ یہاں دل بھی لگتا ہے، پیسہ بھی ہے اور کام بھی بہت ہے۔

تعلیم و پیشے کے حوالے سے رہنمائی کی عدم دستیابی آج کل ہر دوسرے نوجوان کا مسئلہ ہے۔ آج ہمارے درمیان کا ہر دوسرا نوجوان اپنے پیشے کو لے کر ایک اضطراب اور بے چینی کی کیفیت میں مبتلا ہے۔ کوئی یہ شکوہ کرتا ہے کہ اُس کی نوکری اِس قابل نہیں کہ بنیادی ضروریات کو پورا کیا جاسکے، کہیں ڈگریاں ہیں پر نوکری نہیں، کسی کے پاس سند کوئی اور تو پیشہ کچھ اور ہے۔ کہیں تو نوکری بھی ہے، پیسہ بھی اور ڈگری بھی مگر کام میں دلچسپی کا فقدان ہے۔

اِن سب مسائل کا ایک ہی حل ہے: پیشے کے حوالے سے رہنمائی، جسے ہم کریئر کونسلنگ کہتے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ فی الوقت اِس حوالے سے ہمارے پاس وہ کون سے ایسے ذرائع موجود ہیں جو اِس ضمن میں قابلِ اعتبار اور قابلِ عمل ہیں اور وہ کون سا رویہ ہے جس سے احتراز کرنا ہے۔

پڑھیے: نوکری کا حصول: چھ بہترین تجاویز

ہم جس معاشرے کا حصہ ہیں وہاں بچے مستقبل کی منصوبہ سازی کرتے وقت والدین سے مشورہ نہ صرف اپنا فرض سمجھتے ہیں، بلکہ اُس مشورے پر عمل کرنا بھی اپنی ذمہ داری سمجھتے ہیں۔ مثلاً ایک طالب علم کی خواہش ہے کہ آگے جاکر وہ تجریدی آرٹس کا شعبہ چنے مگر والدین اِس بات پر راضی نہیں، تو اُس صورت میں وہ طالب علم تعظیم کے ہاتھوں مجبور ہوجائے گا۔ سوال یہ ہے کہ کیا 40، 30 سال پہلے فارغ التحصیل ہونے والے والدین آج کے دور کے بدلتے تقاضوں، زمینی حالات، جاب مارکیٹ اور سب سے بڑھ کر اپنے بچوں کی دلچسپی کو مدِنظر رکھتے ہوئے اُن کی بہتر رہنمائی کرسکتے ہیں؟

میرا خیال ہے ایسا نہیں ہے کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو ہمارے معاشرے کے والدین دنیا میں موجود 12 ہزار پیشوں کو چھوڑ کر اپنے بچے کو محض ڈاکٹر یا پھر انجینیئر بننے کا مشورہ نہ دیتے۔

یہی وہ وجہ ہے کہ ہم اپنے اطراف میں دیکھتے ہیں کہ والدین کی جانب سے نوجوانوں کو صرف 2 آپشن دیے جاتے ہیں، اور اِس بات پر مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ اُن ہی میں سے کسی ایک کا انتخاب کرے۔ وہ بچہ جو کہ اِن دونوں میں دلچسپی نہیں رکھتا مگر مجبوراً والدین کی ناراضی کے ڈر سے اُن کو اختیار کرتا ہے، اور اپنی ساری زندگی ایک ادھیڑ بن میں گزار دیتا ہے۔

پھر اِن 2 پیشوں کے لیے معاشرے کا یہی جنون ہے کہ جہاں کسی سرکاری یونیورسٹی میں میڈیکل یا انجینیئرنگ کی 400 سیٹیں ہوں، وہاں 200 ہزار طلباء داخلہ ٹیسٹ دینے پہنچے ہوئے ہوتے ہیں، اور سیٹیں 80 اور 90 فیصد مارکس کی بلند ترین شرح پر ملتی ہیں، جس سے نسبتاً کم مارکس حاصل کرنے والے بچے اِس ایک داخلہ ٹیسٹ کو ہی اپنی قابلیت کا معیار سمجھ کر ڈپریشن کا شکار ہوجاتے ہیں اور والدین کے طعنے برداشت کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔

پیشے کا انتخاب کسی ماہر کیریئر کونسلر سے مشورے کے بعد کرنا چاہیے۔ پاکستان میں گوکہ یہ رواج بہت کم ہے اور اِس طرح کے پروفیشنل بھی بہت کم ہیں۔ چند جامعات میں اگر اِس طرح کے ماہرین موجود ہیں بھی تو اُن کا کام اب کونسلنگ کے نام پر جامعہ میں موجود ڈگری پروگرامز کی مارکیٹنگ کرنا رہ گیا ہے۔

اگر آپ کسی ماہر کیریئر کونسلر سے رابطے میں نہیں ہیں تو آپ یہ کام خود بھی کرسکتے ہیں، البتہ اِس کے لیے ضروری ہے کہ آپ نیچے دیے گئے چار مراحل پر عمل کریں۔

اپنے آپ کو پہچانیں

اپنی صلاحیتوں کے بارے میں جانیں، جس پیشے کو آپ اختیار کرنا چاہتے ہیں اُس کام کو کرنے کی صلاحیت آپ کے اندر ہونی چاہیے۔ کچھ لوگوں کے اندر پیدائشی تخلیقی صلاحیتیں ہوتی ہیں، لہٰذا یہ اُن پر منحصر ہے کہ اپنی فطری ترجیحات دریافت کریں۔ اِس کھوج میں لگ جائے کہ اُن میں وہ کون سی خداداد صلاحیت ہے جس کا استعمال وہ اپنے پیشے میں کرسکتے ہیں۔

کچھ خاص صلاحیتیں آپ کی بچپن سے کی گئی تربیت کے دوران آپ کے اندر شامل ہوجاتی ہیں۔ مثال کے طور پر جن گھروں میں بچوں کو کتابوں سے رغبت دلائی جاتی ہے، اُن کے اندر لکھنے کی صلاحیت کتابیں نہ پڑھنے والے بچوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ بہتر ہوتی ہے۔ وہ بچے اپنی اِس صلاحیت کو استعمال کرتے ہوئے اپنے شعبے کے متعلق مضامین لکھ سکتے ہیں اور نام اور پیسہ دونوں کما سکتے ہیں۔

کچھ بچے ہمیں ایسے نظر آتے ہیں جو باتونی ہوتے ہیں، تو کچھ خاموش طبع، اور ایسے بچے بھی ہوتے ہیں جو بچپن ہی سے قائدانہ صلاحیت رکھتے ہیں، گھر میں جو بھی شرارتیں ہوں اُس میں اُنہی کی کارستانی ہوتی ہے۔

ایسے بچے جب بڑے ہوتے ہیں تو یہ صلاحیتیں اُن میں پنپتی رہتی ہیں، یوں وہ یقیناً اس ہنر کو مسلسل استعمال کرنے کی وجہ سے منصوبہ بندی اور قیادت کا خاصہ تجربہ حاصل کرلیتے ہیں اور اُن کو کسی بھی شعبے میں قائدانہ کردار ادا کرنے میں زیادہ مشکل پیش نہیں آئے گی۔

اِسی طرح جو شخص بچپن سے ہی پبلک اسپیکنگ کی صلاحیت رکھتا ہو، وہ اگر ٹیچنگ کے شعبے میں جانا چاہے تو اُسے عدم اعتماد جیسا مسئلہ درپیش نہیں ہوگا۔ لہٰذا اِس بات کو سمجھنا ہے کہ آپ کے اندر وہ کون سی قدرتی صلاحیت موجود ہے جس کے عین موافق آپ نے اپنے پیشے کو چننا ہے۔

مزید پڑھیے: نوکری کو لات مار کر خوبصورتی کی تلاش

اپنی دلچسپی جانیں

یہ مرحلہ بھی آپ کی اپنی ذات سے تعلق رکھتا ہے کہ آپ کو کس کام میں زیادہ دلچسپی محسوس ہوتی ہے، کیا آپ لوگوں سے ملنے جلنے اور بات چیت میں پہل کرنے کو بہت اچھا سمجھتے ہیں؟ اگر ہاں تو پھر آپ کے لیے ایسے کام کو کرنے میں بہت آسانی ہوگی جس میں آپ کو روزانہ نت نئے افراد سے ملنے اور بات چیت کرنے کے مواقع ملیں، مثلاً سیلز یا پبلک ریلیشز۔

اگر آپ کو زیادہ لوگوں سے میل جول پسند نہیں اور آپ اپنے آپ میں مگن رہنے والے انسان ہیں تو پھر آپ کو یقیناً ایسے شعبے بہتر لگیں گے جس میں آپ کی زیادہ لوگوں سے ملاقات نہ ہو۔ صرف آپ ہوں اور آپ کا کام، جیسے کہ ریسرچ کا شعبہ، یا سوشل میڈیا مارکیٹنگ یا لکھنے لکھانے کا پیشہ۔

ایسا شعبہ جس میں آپ کی دلچسپی اور پسندیدگی دونوں برقرار ہوں تو اُس کا فائدہ یہ ہے کہ ایسے شعبے میں آپ اگر 24 گھنٹے بھی کام کرتے رہیں تو تھکن آپ کے اور کام کے درمیان کوئی رکاوٹ نہ ڈال سکے گی۔ اِس طرح آپ اُن لوگوں سے زیادہ کارکردگی دکھا سکیں گے جو اُس شعبے میں بِناء دلچسپی کے فقط روزی کمانے کی خاطر موجود ہیں۔ یوں آپ کو اُس شعبے میں کام کرنے کا ایک الگ فائدہ ملے گا۔

کیا اس شعبے میں پیسہ ہے؟

یوں تو کوئی بھی پیشہ اختیار کرنے کا سب سے بڑا مقصد رزق حلال کمانا اور اپنے گھر والوں کا پیٹ پالنا ہی ہوتا ہے، اِس لیے آپ کا شعبہ ایسا ہونا چاہیے جس میں آپ باآسانی اتنا پیسہ کما سکیں کہ اپنی اور اپنے گھر والوں کی ضروریات پوری کرسکیں۔ بہت دفعہ ہم اپنے پیشے سے، جس میں ہماری دلچسپی بھی ہوتی ہے، اس لیے بددل ہوجاتے ہیں کہ اُس میں ہم سے جتنا کام لیا جاتا ہے اتنی اُس کی اجرت نہیں ہوتی یعنی محنت کا وہ پھل نہیں ملتا جس کے ہم طلبگار ہوتے ہیں۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہمارا اُس کام سے دل اُٹھ جاتا ہے ساتھ ہی ہماری کارکردگی بھی گر جاتی ہے۔

لہٰذا پیشے کو اختیار کرتے ہوئے اُس کی مارکیٹ میں مانگ کو سمجھیں اور یہ بھی سروے کریں کہ ابتداء میں اور پھر 5 سال کے بعد اُس پیشے میں کس قدر پیسے کمائے جاسکتے ہیں۔

جانیے: اسٹینوگرافی: اچھی سرکاری نوکری کا شارٹ کٹ

کیا کوئی شعبہ آپ کے نظریات سے مطابقت رکھتا ہے؟

اور آخری اور سب سے اہم نقطہ یہ کہ وہ پیشہ آپ کے نظریات، آپ کی اقدار کے مطابق اور اخلاقی اعتبار سے مناسب ہو۔ ایسا بھی دیکھا گیا ہے کہ بعض لوگ کچھ ایسے پیشے اختیار کرلیتے ہیں جو اُن کے اپنے نظریات کے مطابق نہیں ہوتے، یا جن کو اُن کا خاندان یا اُن کا معاشرہ ایک بہتر پیشہ نہیں سمجھتا جس کی وجہ سے وہ اپنی کمیونٹی سے کٹ جاتے ہیں۔

یوں پیسہ کمانے کی جدوجہد میں وہ اپنی خاندانی اور سماجی زندگی کا خاتمہ کر بیٹھتے ہیں۔ ظاہر ہے اگر آپ اِس دنیا میں آئے ہیں تو پیسہ کمانے کے علاوہ آپ کی ایک معاشرتی زندگی ہوتی ہے جس کا آپ کو خیال رکھنا پڑتا ہے۔ مثال کے طور پر آج بھی بہت سے مذہبی طبقات میں بینکاری کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا۔ کئی بار ایسا ہوا اور دیکھا گیا ہے کہ جب کوئی فرد بینکاری کے پیشے کو اختیار کرتا ہے تو اُس کے رشتے دار اُس کا سوشل بائیکاٹ کرجاتے ہیں جس کا بڑا منفی اثر اُس فرد کی سوچ اور خاندان پر پڑتا ہے۔

لہٰذا کوئی بھی پیشہ اختیار کرتے وقت اِس بات کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے کہ اخلاقی اور نظریاتی اعتبار سے وہ آپ کے اور آپ کے ملنے جلنے والوں کے اذہان سے میل کھاتا ہو۔

جب اِن چاروں نکات کو یکجا کرکے آپ اپنے لیے کوئی شعبہ چنیں گے تو یہ ایک آزمائی ہوئی بات ہے کہ وہ پیشہ ہر حوالے سے بہترین ثابت ہوگا اور اُس میں آپ کا کردار مثالی ہوگا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (2) بند ہیں

KHAN Nov 16, 2017 05:50pm
GOOD
bin yameen Nov 17, 2017 10:40am
Behtareen Kam.. Sir سید اویس مختار# Esy Mazeed Jari Rakhiye Ga Taaky Hum Jeson Ki Eslah Ho Jaye