کراچی : پولیس نے کلفٹن میں واقع بلاول ہاؤس کے سامنے مظاہرہ کرنے والے گنے کے کاشتکاروں پر بدترین لاٹھی چارج کیا جبکہ آنسو گیس کی شیلنگ اور واٹرکینن کے آزادانہ استعمال سے متعدد کاشکار زخمی ہوگئے۔

بعد ازاں پولیس نے سیکڑوں مظاہرین کو گرفتار کیا جن میں خواتین اور بچوں بھی شامل تھے۔

گنے کے کاشتکار مطالبہ کررہے تھے کہ مل مالکان، صوبائی حکومت سے منظور شدہ قیمت سے کم پر گنا فروخت کرنے کے لیے دباؤ ڈال رہے ہیں۔

تاہم مظاہرین پر پولیس کے لاٹھی چارج کو پیپلز پارٹی کی حکومت کی ‘آمرانہ سوچ’ قرار دیتے ہوئے کاشتکاروں نے 23 دسمبر کو نیشنل ہائی وے پر دھرنے دینے کا فیصلہ کرلیا۔

کلفٹن کے ایس پی ڈاکٹر اسد لودھی نے ڈان کو بتایا کہ پولیس نے ریڈ زون میں احتجاج کرنے والوں میں سے 70 سے 80 مظاہرین کو گرفتار کیا ہے۔

یہ پڑھیں: پاکستان میں زراعت پسماندہ کیوں؟

ان کا کہنا تھا کہ ‘ریڈ زون میں کسی بھی نوعیت کی ریلی کا انعقاد قانوناً قابل گرفت جرم ہے’.

ڈاکٹر اسد لودھی نے بتایا ’مظاہرے کے باعث روڈ بلاک ہونے پر ملک بھر میں آئل کی ترسیل رک گئی تھی جس کے بعد پولیس کو اقدامات کرنے پڑے’۔

پولیس کے مطابق گرفتار ہونے والے تمام مظاہرین کو رہا کردیا گیا ہے۔

خیال رہے کہ کاشتکاروں بڑی تعداد کلفٹن میں بلاول چورنگی پر جمع ہوئی تھی انہوں نے احتجاجی بینرز اور پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے۔

مظاہرین نے پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری سے ملاقات کے لیے بلاول ہاؤس میں داخلے کی کوشش کی تو پہلے سے موجود پولیس کی بھاری نفری نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے لاٹھی چارج شروع کردیا۔

جس کے نتیجے میں متعدد مظاہرین زخمی ہوئے اور گرفتاریاں عمل میں آئیں۔

یہ بھی پڑھیں: آب و ہوا میں تبدیلی سے زراعت کو خطرہ

ایس پی ڈاکٹر اسد لودھی نے بتایا کہ کاشتکار مظاہرین نے احتجاجی دھرنے کے لیے کراچی پریس کلب (کے پی سی )کی پیش کش کو مسترد کیا جس کے بعد مجبوراً پولیس کو منشتر کرنے کے لیے اقدامات اٹھانے پڑے۔

بعدازاں کاشتکاروں نے کراچی پریس کلب (کے پی سی) میں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ ‘ہم صرف بلاول سے ملاقات کے خواہش مند تھے کیوں کہ شوگر ملز مالکان سرکاری نرخ 180 فی من پر گنے کی فضل نہیں اٹھا رہے اور تاخیر کی وجہ سے گنے کے وزن میں کمی ہو رہی ہے جس سے کاشتکاروں کومالی نقصان ہو رہا ہے’۔

کاشتکاروں کا کہنا تھا کہ پولیس کی لاٹھی چارج کے بعد سے تاحال دو بچے اور ایک خاتون لاپتہ ہیں۔

احتجاج کے پیچے گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس

صوبائی وزیر داخلہ سہیل انور سیال نے گنے کے کاشتکاروں کے احتجاج کو سازش قرار دیتے ہوئے کہا کہ ‘بلاول ہاؤس پر رچائے جانے والے اس ڈرامے کے پیچے ‘کسی اور’ کا ہاتھ تھا۔

واضح رہے کہ سہیل انور سیال کا خاندان بھی زراعت کے شبعے سے وابستہ ہے، ان کا کہنا تھا کہ ‘احتجاجی مظاہرین میں ایک بھی کاشتکار نہیں تھا’۔

مزید پڑھیں : اسلام آباد میں پوست کی کاشت کا انکشاف

صوبائی وزیر داخلہ نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ‘احتجاجی مظاہرہ حکومت (سندھ) کے خلاف سازش ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ وفاقی حکومت تاحال ایکسپورٹ پالیسی واضح کرنے میں ناکام رہی ہے اس لیے سندھ حکومت شوگر ملز کے خلاف کم ازکم 15 دسمبر تک کارروائی نہیں کر سکتی’۔

انہوں نے بتایا کہ حکومت نے کاشتکاروں کے رہنماؤن کو بات چیت کی پیش کش کی تاہم انہوں نے کوئی توجہ نہیں دی۔

سہیل انور سیال نے حالیہ دنوں میں وجود میں آنے والی گراینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ سندھ حکومت کے خلاف بلاول ہاؤس پر احتجاجی مظاہرے کے پیچھے جی ڈی اے کا ہاتھ ہے۔

انہوں نے جی ڈی اے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ جی ڈی اے کو کاشتکاروں کے حق میں وفاقی حکومت کے سامنے آواز اٹھانی چاہیے۔

سندھ چیمبر برائے ایگریکلچر کے زاہد بھرگڑی کا کہنا تھا کہ ‘پیپلز پارٹی آمرانہ طرز پر معاملات کو چلا رہی ہے اور اپنے ہی ووٹرز پر بدترین تشدد کے بعد حکومت کا حق کھو بیٹھی ہے، ہم صرف پر امن طریقے سے سرکاری قوانین کا اطلاق چاہتے تھے’۔

اس حوالے سے پڑھیں: زرعی قرضوں کا 81 فیصد پنجاب کے کسانوں میں تقسیم

انہوں نے کہا کہ ‘کراچی میں کاشکاروں کے ساتھ نارواسلوک کے بعد حیدرآباد میں ہنگامی اجلاس منعقد کیا ہے جس میں نیشنل ہائی وے پر دھرنے کے حوالے سے فیصلہ ہوگا جو موجوہ احتجاج سے کہیں زیادہ طاقتور ہوگا’۔

اس حوالے سے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ نے صحافیوں کو بتایا کہ ‘کاشتکاروں کی پریشانی کی وجہ وفاقی حکومت ہے، مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) میں طے ہو چکا تھا کہ وفاق گنے کی برآمد پر 10روپے 70پیسے فی کلو سبسڈی دے گی’۔

انہوں نے مزید بتایا کہ صوبائی حکومت نے فیصلہ کیا تھا کہ وہ گنے پر مزید 9 روپے 30 پیسے فی کلو اضافی سبسڈی دے گی اس طرح مل مالکان کو مجموعی طور پر 20 روپے فی کلو پر سبسڈی حاصل ہوگی اور کاشتکاروں سے 182 فی من (40 کلو) پر گنا خرید کر کرشنگ شروع کر سکیں گے۔


یہ خبر 12 دسمبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں