صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں نصیرآباد پولیس نے 4 سالہ بچے پر جوا اور کار سرکار میں مداخلت کا مقدمہ درج کر دیا۔

پولیس کی جانب سے مقدمہ درج کیے جانے پر 4 سالہ فیضان اپنے والد اور دادا کے ساتھ انصاف لینے مقامی سیشن عدالت پہنچے۔

ایڈیشنل سیشن جج امجد خان نے واقعے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے نصیرآباد پولیس سے مقدمے کا ریکارڈ طلب کر لیا۔

مزید پڑھیں: چار سالہ بچے پر ڈکیتی کا مقدمہ

اس موقع پر بچے کے والد نے بتایا کہ پولیس نے رشوت نہ دینے کی پاداش میں ان کے بیٹے کے خلاف مقدمہ درج کردیا۔

بچے کے والد نے موقف اختیار کیا کہ وہ 16 سال سے سنوکر کا کاروبار کر رہے ہیں اور ان کے کلب میں کسی قسم کا کوئی غیر قانونی کام نہیں ہوتا۔

انہوں نے الزام لگایا کہ چوکی انچارج محرر فردوس مارکیٹ نے میرے کلب میں آکر 3 ہزار روپے رشوت کا مطالبہ کیا تھا اور رشوت نہ دینے پر جھوٹے مقدمے میں ملوث کرنے کی دھمکی بھی دی گئی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: لاہور: عدالت نے نو ماہ کے بچے کا مقدمہ خارج کردیا

انہوں نے عدالت سے استدعا کی کہ بیٹے کو جھوٹے مقدمے سے بری کرنے کا حکم دیا جائے۔

ایڈیشنل سیشن جج امجد خان نے واقعے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے نصیرآباد پولیس سے ریکارڈ طلب کر لیا۔

بعد ازاں خبر میڈیا پر نشر ہونے پر سی سی پی او لاہور کیپٹن (ر) محمد امین وینس نے نصیرآباد پولیس کی جانب سے 4 سالہ بچے پر مقدمہ درج ہونے کا نوٹس لے لیا۔

یہ بھی دیکھیں: '6 سالہ بچے پر ریپ کا مقدمہ '

سی سی پی او نے ایس پی ماڈل ٹاون حسنین حیدر سے واقعے کی مکمل تحقیقات کرکے رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کردی۔

سی سی پی او لاہور نے ایک جاری بیان میں کہا کہ انکوائری میں ثابت ہونے پر ذمہ داروں کے خلاف محکمانہ کارروائی ہوگی۔

خیال رہے کہ یہ پہلی مرتبہ نہیں کہ پنجاب پولیس نے کسی معصوم بچے کو مقدمے میں نامزد کیا اس سے قبل متعدد ایسے واقعات سامنے آچکے ہیں جن میں پولیس کی جانب سے معصوم بچوں کو مقدمات میں نامزد کرنے پر عدالتوں کی جانب سے برہمی کا اظہار کیا گیا۔

اس سے قبل 13 جنوری 2017 کو شیخوپورہ میں پولیس نے 2 سالہ بچے پر فائرنگ کا مقدمہ درج کیا تھا، 13 فروری 2015 کو 4 سالہ بچے پر ڈکیتی کا مقدمہ قائم کیا گیا تھا، 12 اپریل 2014 کو لاہور کی عدالت نے 9 ماہ کے بچے کے خلاف مقدمہ خارج کیا تھا جبکہ 14 نومبر 2014 کو 6 سالہ بچے پر ریپ کا مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں