ہری پور: مشعال قتل کیس میں مقتول طالب علم کے والد محمد اقبال نے آخری پروسیکیوشن کے گواہ کے طور پر انسداد دہشت گردی عدالت میں اپنا بیان ریکارڈ کرا دیا۔

واضح رہے کہ رواں برس 13 اپریل کو مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی میں گستاخی کے الزام میں شعبہ ابلاغ عامہ کے 23 سالہ طالب علم مشعال خان کو مشتعل ہجوم نے تشدد کے بعد قتل کردیا تھا۔

عدالت میں جج فضل سبحان خان نے پریزائڈنگ افسر کے طور پر مقدمے کی سماعت کی، جہاں محمد اقبال نے پروسیکیوشن کے آخری (51 ویں) گواہ کے طور پر بیان ریکاڑ کرایا۔

مزید پڑھیں: 'مشعال خان کا قتل منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا'

دفاعی وکلاء میں سے ایک وکیل ایڈووکیٹ مسعود اظہر نے مردان کے جوڈیشل مجسٹریٹ میں سی آر پی سی کی سیکشن 164 کے تحت ریکارڈ کرائے گئے گزشتہ بیان پر اختلاف کیا، انہوں نے کہا کہ جوڈیشل مجسٹریٹ کے سامنے اس سے قبل مشعال کے والد نے 60 طالب علموں، پولیس اور یونیورسٹی انتظامیہ کو ان کے بیٹے کے قتل میں نامزد کیا تھا۔

تاہم انسداد دہشت گردی کی عدالت کے جج کے سامنے بیان سے قبل انہوں نے پولیس اور انتظامیہ کو حذف کردیا جبکہ 57 گرفتار طالب علموں اور تین مفرور ملزمان کو نامزد کیا۔

وکیل دفاع فضل حق عباسی نے جرح کے دوران مشعال کے والد سے پوچھا کہ آیا انہوں نے اپنے بیان سے پولیس اور یونیورسٹی انتظامیہ کا نام پولیس کے دباؤ سے حذف کیا؟

جواب میں محمد اقبال نے کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ گرفتار طلبہ اور مفرور ملزمان ان کے بیٹے کے قتل میں ملوث تھے۔

یہ بھی پڑھیں: مشعال قتل کیس: انسداد دہشت گردی عدالت کا ثبوتوں کا جائزہ

فضل حق عباسی، مسعود اظہر، سیف اللہ اور عنایت علی شاہ سمیت دفاعی وکلاء نے مشعال کے والد کے مکمل بیان پرجرح کی جبکہ ساتھ ہی تفتیشی افسر فاضل خان کا سے بھی جرح کیا، بعد ازاں مقدمے کی سماعت 4 جنوری تک کے لیے ملتوی کردی گئی۔


یہ خبر 15 دسمبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں