مشعال خان قتل کیس میں ایبٹ آباد کی انسداد دہشت گردی عدالت نے واقعے کی ویڈیو فوٹیج دیکھنے کے عمل کا آغاز کردیا۔

انسداد دہشت گردی عدالت کے جج نے سخت سیکیورٹی میں ہری پور کی سینٹرل جیل میں کیس کی سماعت کی۔

منگل کے روز کیس کی سماعت میں تحقیقاتی افسر بھی عدالت میں پیش ہوئے اور واقعے کی ویڈیو ریکارڈنگ جمع کرائی۔

وکیل صفائی نے ڈان نیوز کو بتایا کہ ’سماعت کے دوران تقریباً 23 ویڈیو ریکارڈنگز پراجیکٹر کے ذریعے چلائی گئیں۔‘

انہوں نے کہا کہ فوٹیج چلنے کے دوران تفتیشی افسر نے ملزمان کی نشاندہی اور قتل میں ان کے کردار سے متعلق عدالت کو بتایا۔

تفتیشی افسر نے عدالت کو بتایا کہ پولیس نے ویڈیو ثبوت سوشل میڈیا سائٹس سے جمع کیے جبکہ کیس میں گرفتار ملزمان کے موبائل فونز سے بھی چند ویڈیوز حاصل کی گئیں۔

یہ بھی پڑھیں: 'مشعال خان کا قتل منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا'

وکیل نے دعویٰ کیا کہ کیس میں ویڈیو ریکارڈنگز ملزمان کو قصوروار ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں۔

واضح رہے کہ رواں برس 13 اپریل کو مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی میں گستاخی کے الزام میں شعبہ ابلاغ عامہ کے 23 سالہ طالب علم مشعال خان کو مشتعل ہجوم نے تشدد کے بعد قتل کردیا تھا۔

کیس میں اب تک 48 گواہان اپنے بیانات ریکارڈ کرا چکے ہیں۔

مقتول مشعال خان کے دوست، جو واقعے میں زخمی ہوئے تھے اور بعد جان کے خطرے کے باعث بیرون ملک چلے گئے تھے، بھی ویڈیو لنک کے ذریعے اپنا بیان ریکارڈ کرائیں گے۔

کیس کی 30 نومبر کو ہونے والی سماعت میں دیگر ویڈیوز کا جائزہ لیا جائے گا۔

مزید پڑھیں: مشعال قتل کیس کے 57 ملزمان پر فرد جرم عائد

مشعال خان کے والد محمد اقبال خان نے کیس کی مردان سے دوسرے ضلع میں منتقلی کے حوالے سے پشاور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کرتے ہوئے موقف اختیار کیا تھا کہ مردان یونیورسٹی میں مشعال خان کے ہولناک قتل کے بعد اسی علاقے میں یہ کیس چلانا امن و امان کی صورتحال کو خراب کر سکتا ہے۔

27 جولائی کو پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس یحیٰی آفریدی نے مشعال خان قتل کیس مردان سے ہری پور جیل کی انسداد دہشت گردی کی عدالت (اے ٹی سی) منتقل کرنے کا حکم دے دیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں